محمد بن عثمان عمری
ابو جعفر محمدبن عثمان بن سعید عمری، امام زمانہ(عج) کے چار نائبین میں دوسرے نائب ہیں۔ انھوں نے ابتداء میں امام عسکری(ع) کے وکیل کی حیثیت سے اور بعد میں آپ(ع) کے سفیر کے عنوان سے چالیس سال تک کام کیا تھا۔ ابو جعفر گیارہویں امام(ع) کے زمانے سے ہی اپنے والد عثمان بن سعید عمری کے معتمد خاص تھے اور ان کی وفات کے بعد امام زمانہ(عج) کے نائب خاص کے عنوان سے متعین ہوئے۔
شیخ طوسی کی روایت کے مطابق، سفیر اول کا انتقال ہوا تو ابو جعفر نے میت کے مراسمات ادا کئے، انہیں غسل دیا اور تکفین و تدفین کا اہتمام کیا۔
نام اور کنیت
ان کا نام "محمد" ہے اور وہ امام مہدی کے نائب اول عثمان بن سعید عمری کے فرزند ہیں؛ ان کی کنیت "ابو جعفر" ہے اور ان کے لئے حدیث میں کوئی دوسری کنیت بیان نہیں ہوئی ہے۔
القاب
ماخذ میں ان کے لئے کئی القاب نقل ہوئے ہیں: انہیں کبھی "عَمری" کہا جاتا ہے اور زیادہ تر کتب رجال و حدیث میں انہیں "اسدی" لقب دیا گیا ہے اور کبھی ان کا تذکرہ "کوفی" کے عنوان سے ہوا ہے۔ "سمان" اور "عسکری" بھی ان کے القاب میں سے ہیں۔
نیابت کے دلائل
امام عسکری(ع) نے اپنی حیات میں ہی فرمایا تھا کہ "محمد بن عثمان" امام مہدی(عج) کے نائب ہونگے۔ مروی ہے کہ شیعیان یمن کی ایک جماعت شہر سامرا میں امام عسکری(ع) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو امام(ع) نے محمد کے والد عثمان بن سعید عمری کو بلایا اور ان کی نیابت اور وکالت پر تصریح فرمائی اور فرمایا: شاہد اور گواہ رہو کہ عثمان بن سعید (= نائب اول) میرے وکیل ہیں اور ان کے فرزند محمد بن عثمان (= نائب ثانی) میرے بیٹے اور تمہارے مہدی کے وکیل ہیں۔]
-
- "عَمْری (عثمان بن سعید)" اور ان کے بیٹے (محمد بن عثمان) دونوں موثق اور قابل اعتماد ہیں، وہ جو کچھ تمہیں پہنچاتے ہیں میری طرف سے ہے اور جو کچھ بھی کہہ دیتے ہیں میری طرف سے کہتے ہیں، پس، ان کی بات سنو کیونکہ دونوں میرے موثق اور میرے معتمد ہیں۔]
امامیہ کے مطابق، یہ علائم ـ جن سے اہو جعفر کے نمائندہ خاص اور امام غائب(عج) کے سفیر ہونے کا ثبوت ملتا ہے ـ خطا ناپذیر اور ناقابل انکار ہیں۔ امامیہ کے مطابق، انھوں نے تمام امور سفیر اول کے حکم پر انجام دیئے۔ علاوہ ازیں انھوں نے امام عسکری(ع) کی طرف کے تعین، نائب اول کی طرف کے تقرر اور امام مہدی(عج) کے حکم کے مطابق سفارت کے عہدے پر ترقی پائی۔].
ابو جعفر کو، اپنے والد کی رحلت پر، امام مہدی(عج)
کی جانب سے، تعزیتی مکتوب موصول ہوا جس میں آنجناب(عج) نے ان کے والد کے
انتقال پر ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا تھا اور بتایا تھا کہ انہیں اس
منصب پر مقرر کیا گیا ہے۔]
بایں حال امامیہ
تنظیم کے بعض وکلاء کو ان کی تقرری کے بارے میں شکوک و شبہات کا سامنا
تھا۔ چنانچہ ابو جعفر کی کامیابی مشکلات سہے بغیر حاصل نہیں ہوئی۔ شکوک و
شبہات سے دوچار افراد میں سے بعض کے نام حسب ذیل ہیں:
- ابو محمد حسن شریعی۔
- محمد بن نُصیر نمیری۔
- احمد بن ہلال عبرتائی۔
- ابوطاهر محمد بن علی بن بلال۔
- ابوبکر محمد بن احمد بن عثمان، المعروف بہ ابوبکر بغدادی، جو محمد بن عثمان کا بھتیجا تھا۔
- اسحق احمر۔
- باقطانی۔
- حسین بن منصور حلاج۔ منقول ہے کہ حسین بن منصور حلاج بھی نیابت کا جھوٹا مدعی تھا اگرچہ اس کا مذہب صوفیا کا مذہب تھا؛ تاہم شیخ طوسی نے اپنی کتاب لغیبہ میں بعض مکاتبات کے حوالے س دیئے ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس نے بھی نیابت کا دعوی کیا تھا۔]
آثار
شیخ طوسی اپنی کتاب لغیبہ میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو جعفر محمد بن عثمان عمری فقہ میں صاحب تالیف و تصنیف تھے جو ان کے بعد تیسرے نائب یا چوتھے نائب ابو الحسن سمری تک پہنچی ہیں۔۔]
ابن نوح سیرافی
کہتے ہیں: ابو نصر ہبۃ اللہ ـ جو کلثوم بنت محمد بن عثمان (یعنی دوسرے
نائب کے پوتے) ـ کہا کرتے تھے: "ابو جعفر محمد بن عثمان کی کئی کتابیں تھیں
جو انھوں نے فقہ میں تصنیف کی تھیں اور انھوں نے ان کتب کے تمام مندرجات امام حسن عسکری علیہ السلام، امام زمانہ(عج) اور اپنے والد سے ـ جنہوں نے یہ امام ہادی(ع) اور امام عسکری(ع) سے نقل کئے تھے ـ سنے تھے۔
ان کی کتب میں سے ایک کتاب کا نام "الاشربہ" تھا۔ ام کلثوم بنت محمد بن عثمان رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: "یہ کتاب محمد بن عثمان نے اپنے جانشین حسین بن روح نوبختی
(تیسرے نائب) کو وصیت کرتے وقت ان کے سپرد کردی اور یہ کتاب ان کے پاس
تھی۔ اور ام کلثوم کے فرزند ابو منصور کہتے ہیں کہ "میرا خیال ہے کہ یہ
کتاب تیسرے نائب سے ابو الحسن سَمَری (چوتھے نائب) رضی اللہ عنہ کو ملی تھی۔].
ابو جعفر کی سرگرمیاں
اس کے باوجود کہ ابو جعفر کو ابن ہلال، بلالی اور ابن نضیر جیسے جھوٹے وکلاء کی وجہ سے مسائل کا سامنا تھا، وہ وکالت تنظیم کی سرگرمیوں کو جاری رکھتے تھے اور امامیہ کے درمیان اس کو وسعت دیتے تھے۔ وہ اسی حال میں سفیر اول کے اقدامات کو جاری رکھتے تھے اور امامیہ کے خاص معتمدین کے لئے امام غائب کا وجود ثابت کرنے کی کوششوں میں مصروف رہتے تھے۔
وہ امامیہ کے درمیان اس عقیدے کو ترویج دے رہے تھے کہ غیبت اللہ کے ارادے سے وقوع پذیر ہوئی ہے اور سابقہ ائمہ(ع) کے ارشادات اس حقیقت کا ثبوت ہیں؛ اور یہ کہ وہ (ابو جعفر) امام زمانہ(عج) کے سچے نائب ہیں۔ نیز وہ عباسی حکمرانوں کے آزار و اذیت سے دور رہ کر نائب اول کے فرائض پر عمل کرنے کے لئے کوشاں رہتے تھے۔
چنانچہ جیسا کہ عثمان بن سعید عمری نے عباسی حکمرانوں کو قائل کرلیا تھا کہ امام عسکری(ع) جانشین مقرر کئے بغیر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں اور ابو جعفر نے اسی راستے پر گامزن ہوکر عباسیوں کے اس خیال کو مزید استحکام بخشا۔].
انہیں امید تھی کہ یوں حکومت اس بات پر یقین کرلے گی کہ مزید کوئی تحریک نہیں چلے گی کیونکہ امامیہ کا کوئی امام نہیں ہے جس کے گرد و اکٹھے ہوں اور ہدایت پائیں اور یوں عباسی حکام شیعیان اہل بیت کے خلاف اقدامات میں سست پڑگئے۔
امام غائب کا تعارف
امام غائب(عج) کے سلسلے میں ابو جعفر کی روشیں ذیل کی چند روایتوں میں ملاحظہ کی جاسکتی ہیں:
ایک دفعہ بنو حمدان کے ایک شخص "قلانسی" نے ابو جعفر سے امام عسکری(ع) کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا:
-
- "امام عسکری(ع) دنیا سے چلے گئے لیکن انھوں نے آپ(ع) تمہارے درمیان ایک جانشین چھوڑ گئے ہیں جن کی گردن یوں ہے" اور انھوں نے اشارے سے امام(عج) کی گردن کی ضخامت بتائی اور حاضرین کو سمجھایا کہ امام(عج) سن بلوغت کو پہنچے ہیں۔
شیخ صدوق سے مروی ہے کہ مشہور و معروف عالم عبداللہ بن جعفر حمیری نے ابو جعفر سے ان امام عسکری(ع) کے فرزند کے بارے میں سوال کیا تو انھوں نے اسی عبارت سے استفادہ کیا؛ علاوہ ازیں ابو جعفر نے ایک دوسرے موقع پر ذیل کی عبارت سے جواب دیا:
-
- "صاحب الامر [امام(عج)] ہر سال مناسک حج میں شرکت کرتے ہیں، لوگوں کو دیکھتے ہیں اور ان کو پہچانتے ہیں لیکن وہ آپ(عج) کو نہیں دیکھتے اور نہیں پہچانتے"۔
ان کا کہنا ہے: "میں نے امام مہدی (عج) کو دیکھا جو خانہ خدا کا پردہ پکڑے ہوئے تھے اور دعا کررہے تھے کہ "خداوندا! تو میرے دشمنوں سے میرا انقال لے"۔]
اس کے باوجود کہ ابو جعفر نے عبداللہ حمیری کے لئے امام(عج) کا وجود
ثابت کردیا لیکن انہیں متنبہ کیا کہ آپ(عج) کا نام جاننے پر اصرار نہ
کریں۔ یہ وہ وقت تھا جب عباسی حکام مطمئن ہوچکے تھے کہ امام عسکری(ع) جانشین کے بغیر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔
لیکن انہیں اگر امام(عج) کے نام کا علم ہوجاتا تو وہ وسیع تلاش و جستجو کا
آغاز کرتے اور آپ(عج) اور آپ(عج) کے وکلاء کو جانی خطرہ لاحق ہوجاتا۔ دیگر روایات بھی ثابت کرتی ہیں کہ دوسرے نائب اسی روش پر دوسرے وکلاء کو ہدایات دیا کرتے تھے۔
دوسرے سفیر کے دور کے اہم واقعات
بصرہ میں صاحب زنج کی تحریک
انقلاب زنج (255- 270ہجری قمری/ 766- 783عیسوی) امامیہ کو خاص صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ اس انقلاب کے قائد کا نام علی بن محمد تھا جن کا سلسلہ نسب امام محمد باقر علیہ السلام کے بھائی زید بن علی تک پہنچتا تھا۔ چنانچہ علویوں کی بڑی تعداد ان سے جا ملی اور سنہ 257ہجری قمری/ 871عیسوی میں ان کے انقلاب میں شریک ہوئے۔]
اگرچہ امام حسن عسکری علیہ السلام نے اعلان کیا کہ زنج کا قائد اہل بیت میں سے نہیں ہے،
تاہم عباسی حکام اس انقلاب کو علویوں سے متصل قرار دیتے تھے۔ طبری کا کہنا
ہے کہ صاحب زنج کے انقلاب کو سنہ 270ہجری قمری / 883عیسوی میں تشیع کے
خلاف شدید تشہیری مہم کے ساتھ کچل دیا گیا۔]
کوفہ میں قرامطہ کی تحریک
ایک اور عامل ـ جس نے امامیہ اور عباسیوں کے روابط کو خراب کیا ـ دو اسماعیلی
جماعتوں ـ اصل اسماعیلی جماعت اور قرمطی جماعت ـ کی طرف سے خفیہ سرگرمیوں
کا انکشاف تھا۔ مذکورہ انقلاب اور قرمطیہ اور مبارکیہ کے درمیان تمایز و
تفاوت پر بعض کتب میں تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے۔۔]
نائب دوئم کا کی مدت نیابت
منقول ہے کہ محمد بن عثمان نے اپنے وقت وفات کی پیشنگوئی دو ماہ قبل اپنی وفات کی خبر دی۔
ابوالحسن علی بن احمد دلال قمی روایت کرتے ہیں کہ: "ایک دن میں ابو
جعفر محمد بن عثمان کی خدمت میں حاضر ہوا تا کہ ان پر سلام کہوں۔ اسی وقت
میں نے دیکھا کہ انھوں نے اپنے سامنے ایک لوح (= تختی) رکھی ہے جس پر وہ
نقش بنا رہے ہیں اور قرآنی آیات لکھ رہے ہیں اور حاشیوں میں ائمہ(ع)
کے نام لکھ رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: یہ لوح کیا؟ فرمایا: یہ میری قبر کے
لئے ہے جس پر مجھے لٹایا جائے گا۔ یا یہ کہ انھوں نے کہا: میں اس کو ٹیک
لگاتا ہوں۔ اور فرمایا: میں ہر روز قبر میں داخل ہوتا ہوں اور ایک جزء (= پارہ) قرآن تلاوت کرتا ہوں اور پھر باہر آتا ہوں۔
اس خبر کے راوی ابو علی ہیں جن کا کہنا ہے: "میں گمان کرتا ہوں کہ
ابوالحسن علی بن احمد نے یوں کہا کہ ــ محمد بن عثمان نے ان کا ہاتھ پکڑا
اور مجھے اپنی قبر کے پاس لے گئے اور اپنی قبر مجھے دکھا دی اور کہا کہ میں
فلاں سال کے فلاں مہینے کے فلاں دن کو وفات پاؤں گا اور خدا کی جانب روانہ
ہونگا، اور اس قبر میں مدفون ہونگا اور یہ لوح بھی میرے پاس ہوگی ــ" میں
ان کے ہاں سے باہر آیا اور جو کچھ انھوں نے کہا تھا میں نے لکھ لیا اور ہر
وقت ان اوقات پر نظر رکھے ہوئے تھا؛ کچھ ہی عرصہ بعد ابو جعفر محمد بن
عثمان بیمار پڑ گئے اور آخر کار اسی سال کے اسی مہینے کے اسی دن کو وفات
پاگئے جس کی انھوں نے پیشنگوئی کی تھی اور اسی قبر میں مدفون ہوئے"۔]
ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عمری سنہ 305ہجری قمری کے ماہ جمادی الاول کے اخر میں وفات پاگئے ہيں۔]
علمائے رجال و حدیث کے درمیان قول مشہور یہ ہے کہ محمد بن عثمان کی نیابت کی مدت تقریبا 50 برس تک تھی لیکن یہ قول قابل قبول نہیں ہے کیونکہ محمد بن عثمان سنہ 305 ہجری میں وفات پاچکے ہیں اور ان کی وفات اور امام عسکری(ع) کی شہادت کے درمیان 45 سال کا وقتی فاصلہ ہے اور ہم نے قبل ازیں عثمان بن سعید
کے حالات لکھتے ہوئے کہا تھا کہ وہ (یعنی نائب اول) پانچ سال تک امام
عسکری(ع) کے بھی نائب تھے [اور دو ائمہ کی طرف سے ان کی نیابت کی پوری مدت
10 سال تھی] چنانچہ محمد بن عثمان کی مدت نیابت 50 نہیں بلکہ تقریبا 40 سال
ہوگی۔
Post a Comment