Header Ads

ads header

عثمان بن سعید عمری


عثمان بن سعید عَمری، امام مہدی(عج) کے اولین نائب خاص ہیں۔ شیخ طوسی نے اپنی کتاب الغیبہ میں امام زمانہ(عج) کے سفراء ـ بالخصوص پہلے سفیر ـ کے بارے میں لکھا ہے: "جن سفراء کا تذکرہ ائمہ(ع) نے نیکی کے ساتھ کیا ہے ان میں سب سے پہلے ایک بزرگوار مرد ہیں جن کی حضرت امام ہادی(ع) اور امام عسکری(ع) نے توثیق فرمائی ہے اور وہ شیخ موثق ابو عمرو، عثمان بن سعید اسدی عَمری ہیں۔

نام اور القاب

ان کا نام "عثمان بن سعید"، کنیت "ابو عمرو" ہے جبکہ ان کے القاب "العَمری"، "سمّان"، "اسدی" اور "عسکری" ہیں۔
صرف] کشی کی روایت کے مطابق ان کا نام حفص بن عمر عمری تھا جو ممکن ہے کہ دوسرے وکلا کے ساتھ ملاقاتوں کے لئے ان کا رمزی نام ہو۔]
شیعہ اموال اور مراسلات ان تک پہنچا دیتے تھے اور وہ انہیں بکروں کی کھال اور اس جیسی دوسری چیزوں میں رکھ لیتے تھے تا کہ انہیں خفیہ رکھا جاسکے اور پھر انہیں امام زمانہ(عج) کے لئے روانہ کردیتے تھے۔]

وجۂ تسمیہ

انہیں "سمّان" کا لقب دیا گیا تھا کیونکہ وہ گھی کا کار و بار کرتے تھے تا کہ اس وسیلے سے اپنی مذہبی ذمہ داریوں کو خفیہ رکھ سکیں اور حکومت وقت کی گزند سے محفوظ رہ سکیں۔]

عثمان بن سعید کی حیات

ان کے سال ولادت، نوجوانی کے ایام اور مسکن کے بارے میں ہمیں کچھ زیادہ معلومات حاصل نہیں ہوسکی ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عثمان بن سعید کو 11 سال کی عمر میں امام جواد(ع) کے گھر میں خادم کی حیثیت سے رکھا گیا۔ جس کے بعد وہ مباشر اور منتظم کے عنوان سے امام(ع) کے دست راست بنے اور امام(ع) ان پر پورا اعتماد کرتے تھے اور آپ(ع) انہیں اپنے کاموں کی انجام دہی پر مامور کیا کرتے تھے۔]
احمد بن اسحق سے منقول ہے کہ " میں نے حضرت ہادی علیہ السلام سے پوچھا کہ میں کس کے ساتھ لین دین کروں اور اپنے سوالات کا جواب کس سے مانگوں اور کس کی بات قبول کروں؟ تو آپ(ع) نے فرمایا: عمری میرے معتمد ہیں؛ وہ جو بھی تم تک پہنچا دیتے ہیں یقینا میری طرف سے پہنچاتے ہیں اور جو کچھ بھی میرے حوالے سے تم سے کہتے ہیں میری طرف سے ہی کہتے ہیں، ان کی بات سنو اور مانو، کیونکہ وہ میرے معتمد اور امین ہیں"۔]
عثمان بن سعید امام جواد علیہ السلام کی شہادت کے بعد امام ہادی(ع) کے زمانے میں آپ(ع) کے معتمد تھے اور آپ(ع) کی امامت کے آخری دس برسوں کے دوران وکالت کے خفیہ تنظیم کے سربراہ تھے۔ وہ ائمہ(ع) اور دوسرے شہروں اور سرزمینوں میں متعین وکیلوں کے درمیان واسط اور رابط کا کردار ادا کرتے تھے۔ امام ہادی(ع) کی شہادت کے بعد امام عسکری(ع) کے نزدیک بھی قابل اعتماد ٹہرے۔ وہ امام ہادی(ع) کے معتمد خاص تھے اور] امام ہادی(ع) کی شہادت کے بعد امام عسکری(ع) کے معتمد ٹہرے۔ امام(ع) نے انہیں اپنے منصب پر بحال رکھا اور جو کچھ آپ(ع) کے والد نے ان کے بارے میں فرمایا تھا، انھوں نے بھی وہی فرمایا۔</ref>صدر، تاريخ الغيبة الصغری، ص396۔
شیعیان یمن کی ایک جماعت وجوہات (= خمس و نذورات وغیرہ) امام امام عسکری(ع) کے پاس لائے تو آپ(ع) نے ان سے عثمان بن سعید کا تعارف اپنے وکیل کے عنوان سے کرایا اور اعلان کیا کہ عثمان کا فرزند محمد بن عثمان عمری بھی امام مہدی(عج) کے وکیل ہونگے۔]
مروی ہے کہ امام عسکری(ع) نے اپنے جانشین کا تعارف حسن بن ایوب، علی بن بلال، احمد بن ہلال اور عثمان بن سعید سمیت اپنے 40 قابل اعتماد اصحاب سے کرایا۔ آپ(ع) نے ان سے کہا: "اس کے بعد تم انہیں نہیں دیکھ سکو گے چنانچہ ان کی غیر موجودگی کے دوران ان کے نمائندے عثمان بن سعید کی اطاعت کریں۔۔

سفیر کا اہم ترین فریضہ

سفیر کے فرائض میں سے ایک یہ تھا کہ وہ شیعیان اہل بیت کو امام(عج) کا نام پوچھنے سے منع کرتے تھے۔ شاید ماحول پر چھائی ہوئی خاموشی اور امام عسکری(عج) کی وصیت ـ جنہوں نے اپنے جانشین کا تذکرہ کئے بغیر اپنا پورا ترکہ اپنی والدہ کے نام کیا اور انہیں جانشین قرار دیا ـ حکومت کے کارندوں کو مطمئن کرچکی تھی کہ امامیہ کا مزید کوئی امام نہیں ہے چنانچہ اب ان کی طرف سے کوئی بھی سرگرمی غیر مؤثر ہوگی۔
اس جیسے امور کی انجام دہی کے لئے سفیر کو بارہویں امام(ع)]] اور آپ(عج) کے پیروکاروں کے ساتھ تعلق برقرار کرنے کے سلسلے میں، محدود آزادی حاصل تھی۔ مندرجہ ذیل جملے جو نائب اول یا سفیر اول سے منسوب ہیں، اس موضوع کی وضاحت کرتے ہیں:
"خلیفہ سوچتا ہے کہ ابو محمد العسکری(ع) کوئی وارث چھوڑے بغیر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں؛ اسی لئے آپ(ع) کا ترکہ تقسیم ہوا اور ایسے شخص کو ملا جس کا اس میں کوئی حق نہ تھا؛ دوسری طرف سے وہ (امام دوازدہم) بھی خاموش رہے۔ ان کے وکلاء بغیر کسی خوف و خطر کے ان کے کام سر انجام دے رہے ہیں۔ اگر ان (امام مہدی(عج)) کا نام آشکار ہوجائے تو حکمران ان اور ان کے مسکن کی تلاش میں نکلیں گے؛ چنانچہ تم کو اللہ کی قسم دیتا ہوں ان کا نام مت پوچھو۔]

سفیر اول کا مخالف محاذ

جیسا کہ بیان ہوا، امام(عج) کی غیبت سفراء کے کردار کی تدریجی توسیع کا سبب ہوئی۔ دریں اثناء اس غییبت) نے امام(عج) کی جانشینی (= سفارت یا نیابت) کے مدعیوں کے لئے امامیہ کے ہاں حقیقی نمائندگی کے بہانے سرگرم ہونے کا امکان فراہم کیا۔ یہ صورت حال زیادہ تر غیبت صغری کے زمانے میں غالیوں کی طرف سے پیدا کی گئی۔ اس زمانے میں غلو آمیز عقائد کے بارے میں سنجیدگی سے بحث ہورہی تھی اور نُوّاب کا ایک اہم فریضہ ان مشکلات کا حلّ اور غالیوں کے گمراہانہ افکار کے خلاف ہمہ جہت جدوجہد سے عبارت تھا۔]

عراق سفارت کا مرکز

گیارہویں امام(ع) کی رحلت کے بعد، سفیر اول کے پاس سامرا میں رہنے کے لئے کوئی وجہ نہ تھی۔ اس زمانے میں سامرا عباسی حکمرانوں کا دارالحکومت اور عسکری مرکز تھا جو ابتداء سے ہی ائمہ(ع) کی مخالفت کرتے آئے تھے۔ شاید اسی وجہ سے عثمان بن سعید اپنی سرگرمیاں ـ دارالحکومت میں موجود حکام کی نگرانی سے دور ـ جاری رکھنا چاہتے تھے؛ چنانچہ انھوں نے ہجرت کی اور بغداد کے علاقے کرخ کو ـ جو شیعیان اہل بیت کا مسکن تھا ـ تنظیم امامیہ کی قیادت کا مرکز قرار دیا۔]
عثمان بن سعید تقیہ کے عنوان سے عباسی حکومت کی تلاشیوں سے بچنے کی کوشش کرتے تھے چنانچہ وہ کبھی بھی کسی آشکار مذہبی بحث و مجادلے میں شرکت نہیں ہوتے تھے۔ وہ روغن فروش (سمّان) کے بھیس میں شرعی وجوہات کو گھی کے کنستروں میں منتقل کرتے تھے چنانچہ وہ "زیّات" یا "سمّان" کے لقب سے ملقب ہوئے۔۔]
مروی ہے کہ عثمان بن سعید گیارہویں امام کے زمانے میں وکلاء کے سربراہ تھے اور وہ یوں کہ شیعیان امام(ع) جو وجوہات وکلاء کے ہاتھوں بھجواتے تھے وہ انہیں عثمان کی تحویل میں دیتے تھے اور عثمان بھی انہیں امام(ع) کی خدمت میں پیش کرتے تھے۔]

امام عسکری(ع) کی وفات کے بعد بعض وکلاء آپ(ع) کے فرزند بارہویں امام(ع) کے منکر ہوئے۔ کلینی کی روایت کے مطابق امام عسکری(ع) کے فرزند کے معترف و معتقد افراد کو خطوط موصول ہوئے اور ان کو اپنے مناصب پر بحال رکھا گیا، جبکہ آنجناب(عج) کے وجود کے منکرین اس طرح کے مکاتیب سے محروم ہوئے اور وکالت سے معزول ہوئے۔]

سفیر اول کی وفات

اس کے باوجود کہ عثمان بن سعید کا کردار بہت اہم ہے لیکن کسی نے بھی ان کی تاریخ وفات بیان نہیں کی ہے۔ متاخر مؤرخین نے قابل توجہ تواریخ پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔
ہاشم معروف الحسنی لکھتے ہیں: عثمان بن سعید عمری نے سنہ 265ہجری قمری/ 879عیسوی تک سفارت اور نیابت کی ذمہ داری نبھا دی ہے۔ لیکن وہ اس مدعا کے لئے کسی سند و ماخذ کا حوالہ نہیں دیتے۔ دوسری طرف سے جواد علی لکھتے ہیں:
بارہویں امام(عج) کی غیبت کے 20 سال بعد سنہ 280ہجری قمری/ 893عیسوی میں آپ(عج) کے پہلے سفیر وفات پاگئے۔ امام غائب(عج) نے ان کے فرزند اور جماعت شیعہ کے نام اپنی توقیع میں اس مرد متقی کی وفات پر تعزیت کہنے کے بعد، ان کے فرزند ابو جعفر محمد بن عثمان عمری کو اپنے نائب اور والد کے جانشین کے طور پر متعین فرمایا۔]
البتہ شیخ طوسی کی روایت کے مطابق، سفیر اول طویل مدت تک اس منصب پر فائز نہیں رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ "جب محمد بن عثمان اپنے والد کے جانشین ہوئے تو احمد بن ہلال عبرتائی ـ جس کا سال وفات سنہ 267ہجری قمری ـ  امام زمانہ(عج) کی طرف سے ان کی نیابت اور والد کی طرف سے ان کی جانشینی کا منکر ہوا۔ چنانچہ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ سفیر اول سنہ 267ہجری قمری / 880عیسوی سے قبل اور سنہ 260ہجری قمری/ 874عیسوی میں وفات پاچکے ہیں۔
عثمان بن سعید نے امام مہدی علیہ السلام کے حکم پر اپنے فرزند محمد بن عثمان بن سعید کو اپنے بعد نائب خاص کے طور پر مقرر کیا۔ البتہ قبل ازاں اما عسکری(ع) نے فرمایا تھا کہ محمد بن عثمان امام زمانہ(عج) کے معتمدین میں سے ہونگے۔]

مقبرہ

مروی ہے کہ عثمان بن سعید کی تدفین بغداد کے مغربی حصے میں واقع مسجد درب میں ہوئی۔ اس مسجد کو مسجد درب کہا جاتا ہے کیونکہ یہ "درب جبلہ" نامی محلے میں واقع ہے اور یہ "شارع میدان" کی ذیلی سڑک ہے۔ اگرچہ ابن برینہ کا کہنا ہے کہ ان کا مقبرہ بغداد کے مغرب میں واقع ہے

No comments