حسین بن روح نوبختی
ابو القاسم حسین بن روح نوبختی (متوفی سنہ 326ہجری قمری)، امام زمانہ(عج) کے تیسرے نائب خاص تھے اور بغداد میں دوسرے نائب خاص کے قریبی معتمدین میں سے تھے۔]
ابوالقاسم امام حسن عسکری علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے۔ محمد بن عثمان عمری نے اپنی حیات کے آخری لمحات میں [[امام مہدی(عج) کی وصیت کے مطابق ان کی جانشینی کا اعلان کیا؛ ان کے بعد شیعہ اپنے اموال تحویل دینے کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے۔ ان کی نیابت کی مدت 21 برس تھی۔
ولادت
ان کا سال ولادت معلوم نہیں ہے۔ وہ شہر آبہ (شہر ساوہ کے قریب) کے باشندوں کے لہجے میں فارسی بولتے تھے اور وہاں کے عوام کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے تھے، جس سے ان کے قمی ہونے کے احتمال کو تقویت ملتی ہے۔۔</ref>۔حسین، جاسم، تاریخ سیاسی غیبت، ص193۔</ref>
جیسا کہ بعض مآخذ میں ان کا تذکرہ قمی کے عنوان سے کیا گیا ہے؛ تاہم زیادہ تر مآخذ میں نوبختی کے عنوان سے مشہور ہیں۔
نوبختی خاندان سے ان کا انتساب سبب غالبا ان کی والدہ کی جانب سے ہے وہ "روحی" بھی کہلائے ہیں۔ وہ 18 شعبان سنہ 326ہجری قمری میں وفات پاگئے اور بغداد کے علاقے نوبختیہ میں مدفون ہوئے۔]
حسین بن روح نیابت سے پہلے
مروی ہے کہ وہ امام حسن عسکری علیہ السلام کے معتمد افراد اور معاونین میں شمار ہوتے تھے۔۔ وہ نائب کی وفات اور اپنی نیابت سے قبل اموال کی حفاظت کے ذمہ دار تھے اور ان اور بارہویں امام(عج) کے دوسرے عاملین کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرتے تھے۔]
حسین بن روح کی نیابت
اس کے باوجود، لغیبہ منقولہ روایات کے مطابق امامیہ کی اکثریت کو توقع تھی کہ جعفربن احمد بن مُتَیل قمی یا ان کے والد احمد بن متیل ـ جو دوسرے نائب کے اصحاب میں سے تھے ـ یا پھر مشہور و معروف عالم و متکلم ابو سہل اسمعیل بن علی نوبختی (متوفی سنہ 311ہجری قمری)، نائب خاص کے طور پر منتخب ہونگے۔ تاہم نائب ثانی کی بیٹی ام کلثوم بنت محمد بن عثمان سے منقول ہے کہ وہ برسوں سے نائب ثانی
کے وکیل تھے اور ان کے خواص اور اصحاب و اقارب میں شمار ہوتے تھے یہاں تک
کہ ابو جعفر راز کی باتیں ان سے کہتے تھے اور معمول کے اموال کے علاوہ ان
کے اخراجات کے لئے ایک اضافی رقم بھی انہیں ادا کرتے تھے۔ نائب ثانی کی
اتنی ساری توجہات و عنایات شیعیان اہل بیت کے ہاں ان کی جلالت قدر اور رفعت منزلت کا سبب بنیں اور یہ سلسلہ ان کی اپنی نیابت کے اعلان تک جاری تھا۔ مآخذ و منابع کے مطابق ابو جعفر عمری نے اپنی حیات کے آخری لمحات میں ابو سہل اسمعیل بن علی نوبختی، ابوعلی محمد بن ہمام اسکافی
اور ابوعبداللہ بن محمد کاتب وغیرہ کو اپنے پاس جمع کیا اور ان کی موجودگی
میں باضابطہ طور پر حسین بن روح کی نیابت کا اعلان کیا۔ انھوں نے کہا کہ
"مجھے اس اعلان کا حکم دیا گیا تھا اور میں نے اپنے فریضے پر عمل کیا ہے۔]
حسین بن روح کی نیابت کا آغاز
حسین بن روح نے محمد بن عثمان عمری (متوفی سنہ 304 یا 305ہجری قمری) کی وفات کے بعد، خاص تقریب کے ذریعے بغداد کے دار النیابہ میں امام غائب(عج) کی نیابت کا منصب سنبھالا۔ نائب ثانی کے خادم "زکاء" نے ان کی وصیت کے مطابق ان کی عصا اور ان کے صندوقچے کی کنجی حسین بن روح کی تحویل میں دے دی۔ امام زمانہ(عج) کی طرف سے پہلی توقیع شوال سنہ 305ہجری قمری میں موصول ہوئی۔]
شلمغانی کا فتنہ
حسین بن روح نوبختی کے دور نیابت کا اہم واقعہ ابو جعفر محمد بن علی شَلْمَغانی المعروف بہ "ابن عَزاقِر" کا بپا کردہ فتنہ تھا۔ وہ بغداد کے شیعہ علماء میں سے تھا اور حسین بن روح نے اس کی فقہی کتب ـ بالخصوص التکلیف کی اصلاح میں اس کے ساتھ تعاون کیا تھا۔]
اہم بات یہ کہ حسین بن روح کو پانچ سال تک روپوش ہونا پڑا تھا یا
قید و بند کی صعوبتیں جھیلنا پڑی تھیں اور اس دوران انھوں نے شلمغانی کو
اپنے نائب کے طور پر مقرر کیا تھا لیکن اس نے اپنی شہرت سے ناجائز فائدہ
اٹھایا اور ابتداء میں اعلان کیا کہ وہ حسین بن روح کی جگہ نائب اور باب
مقرر ہوا ہے اور بعد میں نبوت اور خدائی کا دعوی کیا۔ اس کا انحراف آشکار ہوا تو حسین بن روح نے ـ عباسیوں کے قیدخانے میں مقید تھے ـ پیغام دے کر شیعیان اہل بیت کو اس کے ساتھ تعلق رکھنے سے منع کیا اور سنہ 312 میں امام زمانہ(عج) کی طرف سے توقیع صادر ہوئی جس میں اس پر لعن کیا گیا تھا۔ اس توقیع کو سنہ 317 ہجری قمری میں آشکار کیا گیا۔ شلمغانی آخرکار سنہ 322 یا 323ہجری قمری میں تختہ دار پر لٹکایا گیا۔]
خاندان نوبختی
نوبختی اہم ایرانی خاندانوں میں سے تھے اور ہمیشہ عباسی خلفاء
کے ہم نشین تھے۔ وہ سیاسی لحاظ سے طاقتور، معاشی لحاظ سے خوشحال اور علمی
لحاظ سے لائق اور با صلاحیت تھے چنانچہ مناسب سماجی حیثیت و اہمیت کے حامل
تھے اور اپنی ان خصوصیات کی بنا پر شیعہ تفکر کی ترویج اور اہل تشیع کی حمایت میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔
مقتدر عباسی کی حکومت کے پہلے ایک عشرے میں، حسین بن روح ابھی امام مہدی علیہ السلام
کے نائب خاص کے طور پر نہیں پہچانے گئے تھے اور انہیں دربار خلافت میں بھی
احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ ان کے اس احترام کا سبب ان کا محتاط
موقف تھا؛ وہ ـ قرامطہ کی بغاوت سمیت ـ اس زمانے کی حکومت مخالف تحریکوں سے
دور رہتے تھے؛ اور پھر وہ خاندان نوبخت سے منسوب تھے اور اس خاندان کو منصور دوانیقی
(دور خلافت، سنہ 136 تا 158ہجری قمری/ 753 تا 753عیسوی) عباسیوں کے نظام
میں اثر و نفوذ حاصل تھا اور اس خاندان کا یہ اعتبار مقتدر کے دور خلافت تک
محفوظ تھا۔ مقتدر کا وزیر بھی اس زمانے میں ابوالحسن علی بن محمد تھا جس
کا تعلق خاندان فرات سے تھا اور تاریخ میں اس خاندان کی وجہ شہرت مذہب شیعہ ہے۔]
ابو علی مسکویہ
ـ (جو تاریخ اسلام کے مؤرخین میں سے ہیں) ـ کے کلام سے ظاہر ہوتا ہے کہ
"ابن فرات" اپنی وزارت کے پہلے دور میں لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے کے درپے
رہتا تھا اور لوگوں کی محبتیں جیتنے کی کوشش کرتا تھا؛ اور عین ممکن ہے کہ وہ دربار عباسی کے ساتھ حسین بن روح کے قریبی تعلق کا سبب بنا ہو۔ نیز نائب ثانی کی بیٹی ام کلثوم بن محمد بن عثمان سے منقول ہے کہ اس زمانے میں ابن فرات حسین بن روح کے لئے مالی امداد بھی دیتا رہتا تھا۔]
حسین بن روح کی سماجی حیثیت
ام کلثوم بنت محمد بن عثمان نے ایک روایت کے ضمن میں، اپنے والد کے زمانے میں حسین بن روح کے نمایاں کردار اور شیعیان اہل بیت(ع) کے ہاں ان کی اعلی حیثیت اور عزت و احترام کی تفصیل بیان کی ہے۔ نیز جب عباسی خلیفہ مقتدر عباسی کی وزارت کا منصب آل فرات کے پاس تھا ـ جو شیعیان اہل بیت کے حامی تھے ـ تو انھوں نے دربار میں کافی اثر و رسوخ پیدا کیا لیکن شیعہ مخالف قوتوں کا حامی حامد بن عباس
وزیر بنا تو حسین بن روح کو کافی مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ سنہ 311ہجری
قمری کو حامد بن عباس نے وزارت سنبھالی اور سنہ 317 کو حسین بن روح قید سے
رہا ہوئے؛ اور ان کی زندگی کے اس مرحلے کے بارے میں کوئی خبر دستیاب نہیں
ہے۔ ہم صرف یہی جانتے ہیں کہ وہ سنہ 312 سے سنہ 317ہجری قمری تک عباسی
حکومت کی قید میں تھے۔]
حسین بن روح اس کے بعد ـ شعبان سنہ 326ہجری قمری تک، جب ان کا انتقال ہوا ـ بغداد
میں بہترین سماجی اور دینی منزلت کے مالک تھے اور عباسی دربار میں آل
نوبخت کے اثر و رسوخ کی وجہ سے کسی نے ان کی طرف ٹیڑھی آنکھ سے نہیں دیکھا۔
مخالفین اور موافقین نے اقرار کیا ہے کہ ابوالقاسم حسین بن روح نوبختی
اپنے زمانے کے عقلمند ترین اور فہیم ترین انسان تھے۔]
حسین بن روح کی روپوشی
حسین بن روح منصب نیابت خاصہ سنبھالنے کے کچھ عرصے بعد روپوش ہونے پر مجبور ہوئے۔ امامیہ
کے مآخذ میں ہے کہ وہ اپنی گرفتاری سے قبل روپوش ہوئے تھے۔ ان کی روپوشی
کا وقت واضح نہیں ہے، بظاہر سنہ 306 ہجری قمری / 919عیسوی سے 311 ہجری
قمری/ 923عیسوی تک کے عرصے میں ـ حامد بن عباس کی وزارت کے دوران ـ روپوش
ہوئے تھے۔ یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ وہ کب اور کتنے عرصے تک روپوش رہے۔ شیخ طوسی کے مطابق، اس عرصے کے دوران شلمغانی حسین بن روح اور عوام کے درمیان رابط کا کردار ادا کرتا تھا۔ لیکن شلمغانی کچھ عرصہ بعد حلول اور غلو کی طرف مائل ہوا اور حسین بن روح نے لوگوں کو اس کے ساتھ تعلق رکھنے سے منع کیا اور سنہ 312 میں امام زمانہ(عج) کی طرف سے توقیع صادر ہوئی جس میں اس پر لعن کیا گیا تھا۔]
نائب امام زمانہ(عج) قیدخانے میں
حسین بن روح نوبختی نے امام زمانہ(عج) کی نیابت خاصہ کے دوران اپنی بابرکت زندگی کے پانچ قیمتی سال (سنہ 312 سے 317ہجری قمری تک) عباسی بادشاہ مقتدر باللہ کے قید خانے میں بسر کئے۔
مقتدر کی پچیس سالہ حکومت کے دوران بارہ وزراء مقرر ہوئے جن میں بعض
کو دو یا تین مرتبہ یہ منصب ملا تھا۔ اس زمانے میں لوگوں کے اموال کی ضبطی
اس قدر رائج تھی کہ تین مرتبہ مقتدر کی وزارت کے منصب پر فائز رہنے والے ابو الحسن بن فرات
نے اموال کی ضبطی سے حاصل ہونے والی آمدنی کے لئے مستقل دیوان کی بنیاد
رکھی اور اس مطالبے کے سامنے سر تسلیم خم کیا کہ اس مد میں حاصلہ آمدنی کا
کچھ حصہ ہر روز، خلیفہ، اس کی ماں اور اس کے بچوں کے سپرد کرتا رہے گا۔ اس
زمانے میں منصب وزارت ایسے شخص کو دیا جاتا تھا جو حکومت کے مالی اخراجات
پورے کرنے کی ذمہ داری قبول کر لیتا تھا۔
حسین بن روح کی گرفتاری کا سبب بھی یہ تھا کہ انھوں نے شیعہ وجوہات (= خمس، زکوۃ
اور نذورات و صدقات) کو حکومتی دیوان کے سپرد کرنے سے انکار کیا تھا۔ اسی
وجہ سے مقتدر عباسی کے حکم سے انہیں پانچ سال تک قید کیا گیا۔
وفات
حسین بن روح نوبختی 18 شعبان سنہ 326ہجری قمری کو وفات پاگئے اور انہیں بغداد کے بازار عطاران یا شورجہ میں واقع محلۂ نوبختیہ میں دفن کیا گیا۔ ان کا مزار آج شیعیان عالم کی زیارتگاہ ہے۔
Post a Comment