ظہور کي آمد پر سرزمين حجاز کے سياسي حالات
ابوبصير کي روايت کے مطابق امام (ع) نے فرمايا: جو شخص مجھے عبداللہ کي
موت کي ضمانت دے ميں اس کو (ظہور) قائم کي ضمانت فراہم کروں گا-
نيز روايت ہے کہ "خاندان فلاں" اگلے خليفہ کے تعين پر اختلاف سے دوچار ہوگا اور يہ اختلاف ظہور کے وقت تک جاري رہے گا-
ابوبصير
امام معصوم (ع) کے حوالے سے کہتے ہيں: جب عبداللہ مرے گا لوگ اگلے خليفہ
کے تعين پر متفق نہيں ہوسکيں گے اور يہ مسئلہ "تمہاري مراد" بر آنے (ظہور
مہدي (عج)) تک ـ انشاء اللہ ـ اختتام پذير نہ ہوگا- سالوں کي بادشاہي رخصت
ہوگي اور بادشاہي کي مدت مہينوں اور دنوں تک گھٹ جائے گي- ابوبصير نے کہتے
ہيں: ميں نے پوچھا: کيا يہ مدت طويل ہوگي؟ اور امام (ع) نے فرمايا: نہيں
ہرگز نہيں!"-
"حاکم عبداللہ" کي موت کے بعد رونما ہونے والے
اختلافات حصول اقتدار کے لئے خانہ جنگي پر منتج ہونگے اور حکمران خاندان کے
فرزندوں کے درميان جنگوں کا آغاز ہوگا اور مذکورہ روايت ميں مذکور ہے کہ
"ظہور کي نشانيوں ميں سے ايک وہ واقعہ ہے جو حرمين کے درميان رونما ہوگا"-
راوي پوچھتے ہيں: وہ واقعہ کيا ہے؟ امام نے فرمايا: "ايک نابودي جو حرمين
کے درميان ہوگي اور فلاں کے فرزندوں ميں سے فلاں پندرہ بزرگوں اور راہنماۆں
کو قتل کرے گا"- يعني يہ کہ بدامني اور سياسي عدم استحکام اور بدنظمي کا
دور دورہ ہوگا-
حالات پر قابو پانے کي قوت اور سياسي عدم استحکام
اور حکام کي خانہ جنگي ميں مصروفيت اور اقتدار کے حصول کے لئے شروع ہونے
والي جنگ کے وقت اہل بيت (ع) کے دشمن ٹولے فعال ہونگے اور يہيں سے ان
روايات کا مفہوم واضح ہوتا ہے جن ميں مِنيٰ کے مقام پر حجاج کي پريشاني اور
بدنظمي کي پيشنگوئي ہوئي ہے جو اُس سال حج کے ايام ميں رونما ہوگي حتي کہ
جمرہ عقبہ (بڑا شيطان) خون آلود ہوجائے گا اور اس کا سبب حجازي حکمرانوں کے
درميان اختلاف اور جنگ ہے-
سرزمين حجاز پر مسلط بدامني کي فضا شيعہ دشمن فضا ہے اور بہت سے شيعہ جيلوں
ميں بند کئے جائيں گے- يہ واقعات پچيس ذوالحجۃالحرام کو رکن و مقام کے
درميان امام مہدي (عج) کے ايلچي يعني "نفس زکيہ" کو مسجد الحرام ميں حرام
مہينے کے دوران قتل کيا جائے گا-
ظہور سے قبل حجاز کا بہت اہم مسئلہ يہ ہے کہ مسلمان سب امام
مہدي (عج) کے چشم براہ اور ان کے ظہور کے منتظر ہونگے- اس زمانے ميں يہ
حجاز ميں پھيل جائے گي کہ امام (عج) مدينہ منورہ ميں سکونت پذير ہيں اور ان
کي تحريک کا آغاز مکہ مکرمہ سے ہوگا- اس دوران امام (عج) مدينہ منورہ اور
پھر مکہ مکرمہ ميں اپنے انصار و اعوان سے رابطہ برقرار کريں گے اور اپنا
قائدانہ کردار تقريبا ادا کريں گے اور ان حساس حالات ميں اپنا پيغام اپنے
پيروکاروں اور اعوان و انصار اور اصحاب تک پہنچاتے رہيں گے- اور (آسماني
ندا اور سفياني کے خروج کے بعد) دنيا بھر کے ممالک ميں اپنے اصحاب سے رابطہ
کريں گے اور يہي غيبت کبري کے دور کا اختتام ہوگا-
ان واقعات و
حوادث کو مدنظر رکھ کر ہم نتيجہ اخذ کرتے ہيں کہ اہليان حجاز اس وقت امام
(عج) کے ظہور کے خواہاں نہيں ہيں اور يہ مسئلہ آنجناب (عج) سے مخفي نہ
ہوگا- چنانچہ امام محمد باقر (ع) سے منقولہ حديث کے مطابق امام مہدي (عج)
صراحت کے ساتھ بيان فرمائيں گے کہ: "اے لوگو! اہل مکہ مجھے نہيں چاہتے ليکن
مجھے ان کي جانب بھيجا گيا ہے تا کہ حجت ان پر تمام کردوں، جيسا کہ مجھ
جيسے افراد کے لئے مناسب ہے کہ اتمام حجت کريں"-
Post a Comment