Saturday, December 19, 2015

ظھور سےقبل کے عجائبات



تمام انسان بالعموم اور امت اسلامی بالخصوص حضرت امام مہدی( علیہ السلام) کے ظہور سے قبل زندگی سخت ترین شرائط میں گزاریں گے، ظلم وستم اپنی انتہاکو پہنچ جائے گا، انحراف اپنے عروج پر ہوگا، بدامنی ہوگی، ہر طرف بے چینی ہوگی بحر ان در بحران ہوگا، مشکلات سے نکلنے کا راستہ نظر نہ آئے گا اس بات کو حضوراکرم۰ کی اس متواتر حدیث سے سمجھا جا سکتا ہے جس میں آپ ۰ نے فرمایا
’’بتحقیق مہدی( علیہ السلام) ضرور تشریف لائیں گے وہ زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھردیں گے جس طرح زمین ظلم وجور سے بھرچکی ہوگی اس حدیث میں ظلم وستم کے بعد عدالت الٰہی کے قیام کی نوید سنائی گئی ہے‘‘۔ (منتخب الاثر باب ٢٥،ص ٢٥٠، ٤٤٧اس مضمون کی ١٢٣، احادیث نقل کی گئی ہیں)
معصومین( علیہم السلام) سے جوا حادیث اور روایات اس مضمون کی وارد ہوئی ہیں جب انکا مطالعہ کرتے ہیں تو ہمارے لئے ظہور سے قبل کے زمانہ کی پوری پوری تصویر کشی ہو جاتی ہے اورظہورکے زمانہ کاپورانقشہ سامنے آجاتاہے ۔

ظہور سے قبل خاص واقعات
مزید برآں یہ احادیث وروایات کچھ اور ظہور سے قبل،خاص واقعات اور حادثات کے رونما ہونے کی خبر بھی دیتی ہیں ہم ایسی احادیث کے چند گروپ بناسکتے ہیں ۔
١۔زمین کا ظلم وجور سے بھر جانا
اس طرح کا مضمون احادیث میں متواتربڑی وضاحت کے ساتھ بیان کیاگیا ہے اور اس مضمون کی روایات اتنی زیادہ ہیں کہ اس بارے کسی قسم کا شک وشبہ نہیں کیا جا سکتا (بشارۃ الاسلام ص ١٨تالیف سید مصطفےٰ آل سیدحیدر )
٢۔ فتنوں کا وجود میں آنا ،ہولناک حادثات اور سانحات کا رونما ہونا
حضرت امام جعفرصادق( علیہ السلام) سے حدیث نقل ہوئی ہے کہ جس میں گمراہ کرنے والے فتنوں کا تفصیل سے ذکر کیاگیا ہے (موسوعۃ الامام المہدی ٴ ج ٢ تاریخ الغیبۃ الکبریٰ ص ٢٤٢ تالیف شہید سید محمد صادق صدر)

’’حضرت قائم( علیہ السلام) کا قیام ایسے حالات میں ہوگا جب عمومی سطح پر لوگ سخت ترین خوف اور سخت پریشانی کی حالت میں ہونگے،زلزلے بپا ہونگے، فتنے رونماہونگے ، مصائب اور مشکلات ہونگی ،ہلاک کردینے والی بیماری طاعون عام ہوگی( ممکن ہے اس سے مراد کینسر یا ایڈز ہو یا اسی قسم کی کچھ اور لاعلاج بیماری ’’خدا بچائے‘‘ )عربوں کے درمیان سخت جنگیں ،عالم اسلام کی عمومی بدحالی کسمپرسی ،لوگوں کے آپس میں شدیدمذہبی اختلافات ہوں گے ، فرقہ واریت عروج پر ہوگی ادیان میں اختلاف ، فرقوں کی بہتات ہوگی، مسلمانوں کے حالات کی ابتری، غرض ہر طرف بے چینی، بدامنی ، بے سکونی بے اطمینانی ، پریشانی ،بیماری ، جنگ وجدال وقتل وغارت گری ،ظلم وستم عام ہوگا‘‘۔(الغیبۃ النعمانی ص ١٧٠ بحار الانوار ج ٥٢ ص ٢٣١)
فتنوں سے مراد
فتنہ کا لفظ کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے جس کا خلاصہ اس طرح ہے ۔

الف : امتحان اور آزمائش میں ہونا ۔
ب: کفر ،گمراہی، گناہ ۔
ج: لوگوں کے درمیان نقطہ نظر اور انکے درمیان نظر یاتی اختلافات۔
٣۔ روزگار کی سختی ،معاشی بحران کی وجہ سے بے صبری
روایات میں آیاہے کہ عصر غیبت میں مومنین سخت مصائب ومشکلات سے دو چار ہونگے ، معاشی بحران ہوگا، قوت برداشت جواب دے جائیگی، اس قدر تکالیف میں ہونگے کہ جب ایک شخص اپنے بھائی کے قریب سے گزرے گا تو کہے گا کاش اس کی جگہ میں مرگیا ہوتا (تاریخ الغیبۃ الکبریٰ ص ٢٤٥ منتخب الاثر ص ٤٣٤)
ظاہر ہے موت کی آرزو ان سختیوں اورمشکلات کی وجہ سے ہوگی جن سے اس دورکے لوگ دوچار ہونگے ۔

٤۔ افکار ، عقائد اورنظریات کا ٹکراؤ ،توڑ پھوڑ,اس حوالہ سے اختلافات
حضرت امیر المومنین(علیہ السلام) سے حدیث وارد ہوئی ہے جس میں آپٴ نے حضرت امام مہدی( علیہ السلام) کے بارے میںگفتگو فرمائی ہے اس حدیث میںآپ ٴکا ایک جملہ ہے
’’حیرانگی ہوگی، پریشانی ہوگی، ایسی غیبت حضرت امام مہدی( علیہ السلام) کے واسطے ہے جس میں قومیں گمراہ ہوجائیں گی ،کچھ ہدایت پاجائیں گے، یہ حیرت اور پریشانی اور گمراہی چند صورتوں میں ہو سکتی ہے کہ کچھ اس حیرت کی وجہ سے گمراہ ہوجائیں گے کچھ اس حیرت اور غیبت میں ہدایت پا جائیں گے۔
یہ حیرت دینی عقائد اور مذہبی نظریات میں ہوسکتی ہے، جو جہالت کے نتیجہ میں باطل افکار، امت کے درمیان رائج ہوجائیں گے،اس طرح کہ غیبت کا طولانی ہوجانا لوگوں کے درمیان شک پیدا کردے گا،اس وجہ سے ان کے درمیان اختلافات پیدا ہوجائیں گے یا یہ حیرت ایک بلند مرتبہ رہبر کی عدم موجودگی میں جہاد کے وجوب کے بارے اور انقلاب کیلئے جدوجہد کے متعلق ہوگا‘‘۔

٥۔جنگ وجدال وقتل وغارتگری
احادیث عصرظہور میں سیاسی بحرانوں کی نشاندہی کرتی ہیں سیاسی عدم استحکام ہوگا جنگیں بہت زیادہ ہونگی قتل وغارتگری عام ہوگی حدیث میں الفاظ ہیں
حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کے قیام سے پہلے ’’یبوح قسم کا قتل ہوگا‘‘ راوی نے سوال کیا کہ یہ کونسا قتل ہے؟ اسکا معنی کیا ہے؟توآپٴ نے جواب میں فرمایا’’ اس سے مراد ہر وقت قتل وغارتگری ،دہشت گردی کا ہوناہے، ختم نہ ہونے والی جنگ وجدال اورقتل و غارتگری مراد ہے، اسکی شدت روز افزوں ہوگی، اس میں کمی نہ آئے گی ۔(بشارۃ الاسلام ص ٨٨٦بحارالانوار ج ٥٢ ص ١٨٢ ، ٢٢٨ ، الممہدون للمہدی ٴ’’ تالیف علی کورانی ‘‘)
بعض روایات میں ان جنگوں کی شدت کو اس قدر بیان کیا گیا ہے کہ زمین کی آبادی کا ایک بڑا حصہ اسکے نتیجہ میں ختم ہوجائے گا۔

حضرت علی( علیہ السلام)اس بارے فرماتے ہیں
’’حضرت مہدی ( علیہ السلام)اس وقت تک قیام نہیں فرمائیں گے جب تک کہ دنیا کی آبادی کا ایک تہائی حصہ قتل نہ ہو جائے گا، آبادی کاایک تہائی حصہ مر جائے گا اور ایک سوئم باقی رہ جائے گا‘‘۔
( المہدی تالیف صدر الدین ص ١٩٨یوم الخلاص کامل سلیمان ص ٥٦٤)
آج کے دور میں ان احادیث میں استعمال الفاظ کی موجودہ رائج اصطلاحات کو اس طرح بیان کرسکتے ہیں کہ آپ ٴ کے ظہور سے قبل سیاسی، معاشی ،ثقافتی ،عقیدتی، اجتماعی اور امن عامہ کا بحران ہوگا، جنگ و قتل وغارتگری، دہشت گردی اوراخلاقی بے راہ روی عام ہوگی۔
آخری زمانہ کے متعلق جامع ترین حدیث نبوی۰
جامع ترین حدیث نبوی جو ان سب واقعات وحالات کو بیان کررہی ہے وہ درج ذیل ہے ۔

حجۃ الوداع کا حوالہ
عبداللہ۱ ابن عباس۱ روایت کرتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ہمراہ حجۃ الوداع کیا ،آپ۰ نے کعبہ کی زنجیرکو پکڑ ا ہوا تھا اورہماری طرف آپ۰ نے رخ فرمایا اورآپ۰ نے ہمیں اس طرح خطاب کیا
’’کیا میں آپ کو ’’الساعت‘‘ کے وقوع پذیر ہونے سے قبل کی نشانیوں اور علامات سے آگاہ نہ کردوں (اس جگہ الساعۃ سے مراد حضرت امام مہدی(علیہ السلام) کا ظہور لیا گیا ہے )
ابن عباس۱ کہتے ہیں اس دن آپ ۰کے قریب ترین شخص جناب سلمان۱ تھے، پس انہوں نے آپ۰ کی یہ بات سن کر آپ۰ سے باربارسوالات کئے اورآپ۰ نے سلمان کو جوابات دیئے تفصیل کچھ اس طرح ہے

سلمان:جی ہاں! یا رسول اللہ ۰ضرور بیان کریں ۔
رسول اللہ ۰:الساعت کی آمد سے قبل ۔

ان حالات میں مومن کا دل اندر ہی اندر پگھلتا جائے گا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے، یہ اس وجہ سے ہوگا کہ وہ منکرات اور برائیوں کو عام دیکھے گا اور ان کو بدل نہیں سکے گا ۔ ١۔ نمازیں ضائع ہونگی، نمازوں کی اہمیت جاتی رہے گی ۔ ٢۔ شہوات کی پیروی عام ہوگی ۔ ٣۔ نفسانی خواہشات کو ترجیح دی جائے گی ۔ ٤۔ مالداروں کی عزت اور احترام کیا جائے گا ۔ ٥۔ دین کودنیا کے بدلے میں بیچاجائے گا۔

سلمان۱:یا رسول اللہ۰ کیا یہ ایسا ہی ہوگا ؟
رسول اللہ۰: اے سلمان۱! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ایسا ہی ہوگا۔

١۔ اس دوران ظالم حکمران ہونگے۔ ٢۔ فاسق وزرائ ہونگے۔ ٣۔ ظالم اور ستمگار نمائندگان ہونگے ۔ ٤۔ امین خیانت کار ہونگے
سلمان۱:یا رسول اللہ۰!واقعی ایسا ہوگا؟
حضرت رسول اللہ۰:جی ہاں اے سلمان۱! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ،ایساہی ہوگا۔


١۔ ا س دوران گناہ نیکی کہلائے گا۔ ٢۔خیانت کا رکو امین سمجھا جائے گا اور امین کو خیانت کار سمجھاجائے گا۔ ٣۔ جھوٹے کی تصدیق کی جائے گی اوراسے سچا کہا جائے گا سچے کو جھوٹا کہا جائے گا اور اسے جھٹلایاجائے گا ۔

سلمان:یا رسول اللہ کیا یہ بھی ہوگا ؟
رسول اللہ۰:جی ہاں اے سلمان ۱سم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدر ت میں میری جان ہے ایسا ہی ہوگا ۔

١۔اس دوران عورتیں حکمران ہونگی۔ ٢۔ لونڈیوں سے مشورے کئے جائیں گے۔ ٣ ۔منبروں پر چھوٹے بچوں کو بٹھایاجائے گا۔ ٤۔ جھوٹ بولنا مشغلہ ہوگا ۔ ٥۔زکات دینے کو تاو ان سمجھا جائے گا اور بیت المال کو لوٹ کا مال سمجھا جائے گا۔ ٦۔ انسان اپنے والد ین پر ظلم کرے گا،جب کہ اپنے دوست پر احسان اور نیکی کرے گا۔ ٧۔دم دار ستارہ طلوع ہوگا۔
سلمان۱:یارسول اللہ۰یہ سب کچھ رونما ہوگا؟
رسول اللہ۰: قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدر ت میں میری جان ہے ایسا ضرورہوگا۔

١۔اس دوران بیوی اپنے شوہر کے ساتھ تجارت میں شریک کاروبار ہوگی۔ ٢۔سازشیں کثرت سے ہونگی۔ ٣۔ عزت دار لوگ غصے سے بپھرے ہوں گے۔ ٤۔ تنگ دست آدمی کی تحقیر کی جائے گی۔ ٥۔ بازار ایک دوسرے کے نزدیک ہوجائیں گے ،کساد بازار ی ہوگی، ایک کہے گا میں نے توکچھ فروخت نہیں کیا ،دوسرا کہے گا مجھے تو بالکل نفع حاصل نہیں ہوا ،غرض ہر شخص اللہ تعالیٰ کی ناشکری کرتانظرآئے گا۔
سلمان۱:یارسول اللہ۰ یہ سب کچھ ہوگا؟
رسول اللہ۰:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اے سلمان۱! ایسا ہی ہوگا


١۔ اس زمانہ میں ایسی اقوام ظاہرہونگی کہ اگرانکے خلاف بولو گے توقتل کردئیے جاؤگے اگر خاموشی اختیار کروگے تو آبرو ریزی ہوگی۔ ٢۔عوام کے اموال کو لوٹیں گے۔ ٣۔عوام کی عزتوں کو پاؤں تلے روندیں گے۔ ٤۔عوام کا خون بہایا جائے گا۔ ٥۔عوام کے دل غیظ و غضب اور غصہ سے انکے خلاف بھرے ہونگے ،انکے بارے رعب اوردبدبہ ان پر طاری ہوگا۔ ٦۔ عوام خوف زدہ ،سہمے ہوئے، پریشان ہونگے ۔
سلمان۱:کیا ایساہی ہوگا یا رسول اللہ۰؟
رسول اللہ۰:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اے سلمان ۱!ایسا ہی ہوگا


١۔اس دوران میری امت مشرق ومغرب کا رنگ پکڑے گی ۔ ٢۔ میری امت کے لوگ کمزور،پریشان ہوںگے، ان کی بے عملی کی وجہ سے مشرق ومغرب ان پرغالب ہوں گے ۔ ٣۔ مشرقی ومغربی اقوام نہ چھوٹے پررحم کریں گی نہ بڑوں کی توقیر اور عزت کریں گی اوروہ اپنی مخالفت اورنافرمانی کرنے والے کو نہیں چھوڑیں گے، وہ انسانوں کی شکل میں سنگدل شیطان ہوں گے ۔
سلمان۱:یا رسول اللہ۰ یہ بھی ہوگا؟
رسول اللہ۰: جی ہاں !قسم بخدا اس دوران یہ سب کچھ ہوگا۔
١۔ہم جنس بازی ہوگی، مرد مردوںپر اکتفا کریں گے اورعورتیں عورتوں کو کافی سمجھیں گی اس دوران مرد ،لڑکوں پرگھر میں رہنے والی کنیزوںکی طرح ٹوٹ پڑیں گے۔
٢۔ مرد، عورتوں کی شباہت اختیار کریں گے اور عورتیں مردوں جیسی بنیں گی ۔
٣۔ عورتیں گھوڑوں کی زین پر بیٹھیں گی، میری امت کی ایسی عورتوں پر اللہ کی لعنت ہے ۔
سلمان۱:یا رسول اللہ۰ !کیاایسا ہوگا؟
رسول اللہ ۰: اے سلمان۱! ایسا ہی ہوگا قسم ہے جان آفریں کی اس دوران ۔


١۔ مساجد کو مزین کیاجائے گا، جیساکہ بیع اورکنائس(یہود ونصاریٰ کی عبادت گاہیں ) کو مزین کیاجاتاہے۔ ٢۔ قرآنوں کوآراستہ کیاجائے گا۔٣۔مساجدکے فلک بوس منارے ہونگے ۔ ٤۔نمازیوں کی صفیں لمبی ہوں گی لیکن آپس میں انکے دل جدا جدا ہونگے ،ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہونگے لیکن آپس میں دشمنیاں ہونگی، بدن ملے ہونگے زبانیں جداجدا ہونگی یعنی وہ سب باہمی اختلافات کا شکار ہونگے۔
سلمان۱ :کیا یا رسول اللہ۰ ایسا ہی ہوگا ؟
رسول اللہ۰ :جی ہاں اے سلمان۱! قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے اس دوران ایساہی ہوگا۔
١۔ میری امت کے مرد حضرات سونا،ریشمی کپڑے اورحرام جانور کے چمڑے کااستعمال کریں گے ۔
سلمان۱:یا رسول اللہ۰ یہ بھی ہوگا؟
رسول اللہ۰:جی ہاں قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے یہ بھی ہوگا اس دوران،

١۔ سود کاکاروبارعام ہوگا۔ ٢۔ بیچی ہوئی چیز کو کم قیمت پر واپس خرید کریں گے۔ ٣۔رشوت پر مبنی کاروبار ہوگا۔ ٤۔ دین کو ایک طرف رکھ کردنیا کو سنوارا جائے گا۔
سلمان۱:یا رسول اللہ۰ یہ بھی ہوگا؟!
رسو ل اللہ۰:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اے سلمان۱! ایسا ہی ہوگا اس دوران،
١۔ طلاق عام ہو جائے گی۔ ٢۔ حدود شرعی قائم نہیں ہونگی ،وہ اللہ تعالیٰ کو ہر گز کچھ بھی نقصان نہ دے سکیں گے ۔
سلمان۱:یا رسول اللہ۰ایسا بھی ہوگا ؟
رسول اللہ۰:جی ہاں! قسم بخدا ایسا ہوگا اے سلمان۱! اس دوران۔
١۔ باجا،ساز ، گانا بجانا، عام ہوگا، اس کے پیچھے میری امت کے بدترین اور شرارتی لوگ ہونگے ۔
سلمان :یا رسول اللہ ۰ یہ بھی ہوگا؟
رسول اللہ۰:جی ہاں قسم بخدا اے سلمان۱! ایسا ہی ہونے والا ہے اس دوران۔
١۔ میری امت کے ثروت مند سیر وسیاحت اور تفریح کے لئے حج پر جائیں گے اور درمیانے طبقہ کے لوگ تجارت اور کاروبار کیلئے حج پرجائیں گے۔
٢۔ فقرائ اور غربائ شہرت اور دکھاوا کیلئے حج کریں گے۔
٣۔ اس دوران ایسے گروہ ہونگے جو غیر خداکیلئے فقہ(علم شریعت) پڑھیں گے۔
٤۔ زناسے ہونے والے بچوں کی کثرت ہوگی۔
٥۔ قرآن پڑھنے میں غنائ کااستعمال کریں گے ۔
٦۔ دنیا میں رغبت رکھتے ہونگے ۔
سلمان۱:یا رسول اللہ۰ ایسا بھی ہوگا ؟
رسول اللہ۰:جی ہاں اے سلمان۱! قسم بخدا ایسا ہوگا اس دوران ۔

١۔ محترمات کی ہتک ہوگی، مقدسات کی بے احترامی عام ہوگی۔ ٢۔ گناہوں سے کمائی کی جائے گی، گناہوں کا ارتکاب کاروبارشمار ہوگا۔ ٣۔ برے لوگ نیکوں پر مسلط ہونگے۔ ٤۔ جھوٹ عام پھیل جائے گا ۔ ٥۔ ضد کرنا، جھگڑالوپن عام رواج پاجائے گا ۔ ٦۔ فاقہ عام ہوگا ۔ ٧۔لباس پہننے پر فخر ومباہات کریں گے۔ ٨۔ بے موسمی بارشیں ہونگی ۔ ٩۔ساز ،باجا ، گانے کے آلات،غنائ کے آلات ڈھولک عام ہونگے، شطرنج، نرد، کا استعمال عام ہوگا اور ان کے استعمال کو اچھا سمجھا جائے گا ۔ ١٠۔ امر بالمعروف سے انکار کریں گے ۔ ١١۔نہی عن المنکر نہیں کریں گے ١٢۔ اس زمانہ میں ایک مومن عام کنیز سے بھی زیادہ ذلیل ہوگا ۔ ١٣۔اس زمانے میںقاریان قرآن اور عبادت گزار ایک دوسرے کو برا بھلاکہیں گے، ایک دوسرے کی ملامت ومذمت کریں گے، ملکوت السموات میں(آسمانوں کی بلندیوں میں ) ایسے لوگوں کوارجاس ، انجاس پلیداورنجس کے نام سے پکاراجائے گا۔
سلمان۱:یار سول اللہ۰ یہ بھی ہوگا ؟
رسول اللہ۰:جی ہاں! قسم اس ذات کی جس کے اختیار میں میری جان ہے اے سلمان۱! ایسا ہی ہوگااس دوران ۔

سلمان۱ :یا رسول اللہ۰ ایسا بھی ہوگا ؟
رسول اللہ۰ :جی ہاں اے سلمان۱! قسم بخدا ایسا بھی ہوگااس دوران۔ ١۔ روبیضہ بولے گا۔
سلمان۱ :میرے ماں باپ آپ پر قربان جائیں یا رسول اللہ۰یہ روبیضہ کیا ہے؟جوبولے اور آواز دے گا؟
رسول اللہ ۰ نے فرمایا!
اس سے مرادوہ شخص ہے جو ان سار ے حالات میں خاموش تھا، وہ ان حالات کودیکھ کر عوام کے مسائل کے بارے بول اٹھے گا اور تھوڑی تعداد کے علاوہ کوئی بھی انکی بات نہ سنے گا ?
(بشارۃ الاسلام ص ٢٥،منتخب الاثر ص ٢٣٢)
مصنف کا تبصرہ
مجھے میری جان کی قسم ہے یہ وہ سب کچھ ہے کہ ہم اس گمراہی اور فسق وفجور کے زمانہ میں زندگی گزار رہے ہیں جوکچھ رسول اللہ۰ نے خبردی ہے ہم اپنے پورے وجود کے ساتھ اس خبر کا بغیر کسی کمی وبیشی کے مشاہدہ کررہے ہیں ،اپنے تمام حواس کے ساتھ اس سب کچھ کو محسوس کررہے اور دیکھ رہے ہیں۔
اس روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے ہر ایک کے تفصیلی معنی بیان کرنے اور ہر جملہ کی تشریح کرنے سے ایک ضیخم کتاب بن جائے گی اس مختصرکتاب میں ان سب تفاصیل کو بیان کرنے کی گنجائش ہی نہیں ہے۔
لیکن ایک بات اس جگہ کہنا مناسب لگتا ہے کہ یہ روایت اور اسی قسم کی دسیوں اور روایات بڑی وضاحت کے ساتھ اس زمانہ اور اس زمانہ میں رونما ہونے والے حالات وواقعات کو بڑی وضاحت کیساتھ بیان کررہی ہیں اوریہ بھی بیان کررہی ہیں کہ اس سب کچھ کے بعد، نور ہدایت نے ظاہر ہونا ہے۔
ان حالات میں آخری زمانہ کی ہلاکتوں سے بچنے کیلئے، کیا اہل بیت (علیہم السلام) کے راستہ پر مکمل طور پر آجانے، انکے اوا مرونواہی کو اپنالینے اور ان سے تمسک کرنے کے سوا کوئی اور چارہ نہیںہے ؟اوراسی طرح جن مشکلات اور مصائب سے ہم اس وقت دوچار ہیں اورجو پریشانیاں انفرادی،اجتماعی اورسیاسی میدان میں ہمیںلاحق ہیں ،ان سب کی اصلی وجہ اور سبب کا ادراک بھی کیاجاسکتا ہے ۔
یا رسول اللہ۰!آپ ۰پر اللہ کی صلوات وسلام ہو، ہمیں ان سب حالات سے آپ نے مطلع کیا اے مہدی ٴآپ ٴ پرسلام کہ ایک دن آئے گا آپ ان تمام خرابیوں کو دور کردیں گے اور ان کی جگہ عدالت اورانصاف کا نفاذ کردیں گے۔
ہم نے جن روایات کو اب تک بیان کیا ہے یہ کلی طور پر زمانہ کے فاسد ہونے کے متعلق اشارہ دے رہی ہیں ،اس بات کو ان میں واضح نہیں کیا گیا کہ یہ حالات کس طرح رونما ہونگے؟ روایات اور احادیث میں وضاحت کیساتھ بیان ہوا ہے کہ ظلم وجو ر کا زمانہ عدالت اور انصاف کے زمانہ سے پہلے ہے۔
یہاں پر ضروری ہے کہ یہ بھی بتاتے چلیں کہ ان روایات میں سے کچھ واقعات کو قیامت کے بپا ہونے سے قبل کے واقعات کے ہمراہ ان عمومی حالات کو بیان کیا گیاہے، اس سے جو نتیجہ ہم نکال رہے ہیںوہ قطعاًمشکوک نہیں ہے کیونکہ حضرت امام مہدی( علیہ السلام) کا ظہور قیامت سے پہلے ہے اور اس میں کوئی فرق نہیں کہ قیامت سے قبل وقوع پذیر ہونے والے واقعات پہلے رونما ہوجائیں ۔
قیامت سے پہلے ظہورحضرت امام مہدی(علیہ السلام)
اس کے ساتھ حضور پاک۰ کی اس حدیث کو سامنے رکھیں کہ آپ۰ نے فرمایا اگرقیامت بپا ہونے میں ایک دن باقی رہ گیا تو بھی اللہ تعالیٰ اس دن کو طولانی کردے گا اور میرا ہمنام ،میرا فرزند، مہدی ٴ ظہور فرمائے گا اور ایک دفعہ اللہ کی زمین پر عدالت کا راج قائم کرے گا اورظلم کا خاتمہ کردے گا ‘‘۔
اس حدیث اور اس مضمون کی اور احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ قیامت کے قیام سے قبل یہ تمام حالات و واقعات ہونگے جن کا اورروایات کے علاوہ اس حدیث نبوی۰ میں بھی ذکر ہوا ہے، لیکن اسکے ساتھ ساتھ ان حالات سے اس حدیث کی سندبھی میسر آگئی کہ یہ حدیث صحیح ہے اور اسی طرح یہ بھی درست ہے کہ ان فتنوں و فساد کی جگہ عدالت کا نفاذ ضرور ہو گا ، ظلم، بے انصافی ، بدامنی ، ہر قسمی بحرانوں کا ایک دفعہ ضرورخاتمہ ہوگا،یہ الٰہی وعدہ ہے جو ضرورپوراہوگا کمزور عوام کو حکومت ملے گی، فرعونیت اور جابرحکمرانوں کا خاتمہ ہوگا، اللہ کی زمین پر اللہ کا نظام نافذہوگا اور یہ ہر صورت ہونا ہے اوریہ سب کچھ قیامت کے بپا ہونے سے پہلے ہوناہے ،ہم اسی نور الٰہی کی صبح کے طلوع کی انتظار میں ہیں، اسی کے طلوع ہونے کے آثار نظرآ رہے ہیں، سب مل کر دعا مانگیں ۔ ١۔ صاحب ثروت ومالدار، فقیرسے ڈرے گا، اس کی حالت یہ ہوجائے گی کہ ایک محتاج ایک جمعہ سے لیکر دوسرے جمعہ تک اپنی حاجت پوری کرنے کا سوال کرے گا لیکن کوئی بھی شخص اس ہاتھ پر کچھ بھی نہیں رکھے گا ۔

اللھم عجل فرج ولیک الحجۃ بن الحسن العسکری وصل علیہ واحفظہ من بین یدیہ وخلفہ وعن یمنیہ ویسارہ۔

No comments:

Post a Comment

Post Top Ad

Your Ad Spot

Pages