Header Ads

ads header

نواب اربعہ کون ہیں؟



نُوّاب اَربَعہ، یا چار نائبین خاص، یا چار جانشین، شیعہ تاریخ میں ان افراد کو کہا جاتا ہے جو غیبت صغری کے زمانے میں امام زمانہ(عج) اور شیعیان اہل بیت(ع) کے درمیان رابطے کا کام سرانجام دیتے رہے ہیں۔ ان کو نواب خاص بھی کہا جاتا ہے۔
یہ چار اکابرین ائمہ(ع) کے معتمد تھے جو اسلامی سرزمینوں کے دور دراز کے علاقوں میں متعین امام زمانہ(عج) کے وکلاء کے ساتھ رابطے میں تھے اور دنیا بھر کے شیعیان اہل بیت سے موصولہ مکاتیب و مراسلات کو آپ(عج) تک پہنچاتے تھے اور آپ(عج) کی توقیعات کو شیعیان اہل بیت تک پہنچاتے تھے۔

نواب اربعہ کی فعالیت کا آغاز

امام مہدی(عج) کے نظروں سے اوجھل اور غائب ہوجانے یعنی غَیبَت کا عمل دو مرحلوں میں انجام پایا؛ پہلا مرحلہ قلیل المدت تھا جس کو غیبت صغری کا عنوان دیا گیا اور دوسرا مرحلہ جو آج تک جاری ہے اور ظہور تک جاری رہے گا، غیبت کبری کہلایا۔ بالفاظ دیگر غیبت صغری وہ زمانہ جو امام حسن عسکری علیہ السلام کی شہادت (سن 260ہجری) سے شروع ہوا اور 229ہجری کو امام(عج) کے چوتھے نائب کی وفات کے ساتھ، ختم ہوا۔
پہلی غیبت دو حوالوں سے محدود تھی: 1۔ وقت کے لحاظ سے 2۔ شیعیان اہل بیت(ع) سے رابطے کے حوالے سے۔
یہ مرحلہ وقت کے لحاظ سے ستر سال تک جاری رہا اور شیعیان اہل بیت(ع) کے ساتھ رابطے کے حوالے سے بھی یہ غیبت، ہمہ جہت نہ تھی؛ اگر چہ امام زمانہ(عج) نظروں سے غائب تھے لیکن یہ غیبت اور نظروں سے اوجھل ہونا سب کے لئے نہ تھا؛ بلکہ بعض افراد کسی طرح امام(عج) کے ساتھ رابطے میں تھے۔ یہ امام زمانہ(عج) کے نائبین خاص تھے۔
امام مہدی علیہ السلام ان نائبین خاص کے توسط سے شیعیان اہل بیت(ع) کے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کے مسائل کو حل کیا کرتے تھے۔ یہ امور و معاملات مالی معاملات کے علاوہ عقیدتی اور فقہی مسائل پر بھی مشتمل تھے۔

شیعہ کتب میں نواب اربعہ کا تذکرہ

نواب اربعہ یعنی عثمان بن سعید العمری، محمد بن عثمان العمری، حسین بن روح نوبختی اور علی بن محمد سمری کے نام اور ان سے متعلق مختلف روایات سب سے پہلے شیخ صدوق (متوفی سنہ 381ہجری قمری) کی کتاب کمال الدین وتمام النعمہ فی اثبات الغیبہ وکشف الحیرہ میں اور بعد میں تفصیل کے ساتھ شیخ طوسی (متوفی سنہ 460ہجری قمری) کی کتاب الغیبہ میں مذکور ہیں۔ ان دونوں اکابرین ـ بالخصوص مؤخر الذکر ـ نے اپنی کتابیں ان دو کتابوں کو بنیاد بنا کر لکھی ہیں جو اس زمانے میں دستیاب نہیں ہیں:
  1. اخبار أبی عمرو و أبی جعفر العَمریین، تالیف: "ابو نصر ہبۃ اللہ بن احمد بن محمد" المعروف بہ "ابن بَرنیہ کاتب" (جو سنہ 400 ہجری قمری میں زندہ تھے۔
  2. اخبار الوکلاء الاربعہ تالیف: احمد بن علی بن عباس بن نوح سیرافی (متوفی تقریبا 413ہجری قمری)، جس کے مندرجات ابو نصر کی کتاب سے ماخوذ ہیں۔ ابو نصر بھی والدہ کی طرف سے نوبختی تھے۔ وہ حسین بن روح کے اہم ترین راویوں میں شمار ہوتے ہیں۔

    نائبین کا تعین

    امام زمانہ(عج) نے غیبت صغری کے دوران چار نائبین خاص متعین کئے۔

    عثمان بن سعید عَمری سمّان

    بغداد میں عثمان بن سعید عَمری کا مزار
    عثمان بن سعید عَمری امام مہدی علیہ السلام کے اولین نائب تھے۔ ان کا لقب "سَمّان" یعنی روغن فروش (یا گھی فروخت کرنے والا) تھا۔ انھوں نے یہ پیشہ اپنے مذہبی اور سیاسی سرگرمیوں کے لئے آڑ فراہم کرنے کے لئے اختیار کیا تھا؛ مروی ہے کہ جو اموال امام زمانہ(عج) تک پہنچانے کے لئے ان کو دیئے جاتے تھے وہ انہیں گھی کے کنستر میں چھپا کر امام زمانہ(عج کے پاس پہنچا دیتے تھے۔]
    قبل ازاں بھی ائمہ(ع) کے بعض وکلا اسی روش کو بروئے کار لاتے تھے؛ جس طرح کہ محمد قطان شرعی رقومات کو پارچہ فروش (یا بزاز) کے طور پر امام(عج) کو پہنچا دیتے تھے۔ محمد بن احمد قطان ان شخصیات میں سے ہیں جو امام زمانہ(عج) کے حضور شرفیاب ہوتی رہی ہیں۔ عثمان بن سعید سنہ 260 ہجری سے پانچ سال کی مدت تک امام(عج) کے نائب خاص تھے۔

    محمد بن عثمان بن سعید عمری

    بغداد میں محمد بن عثمان کا مزار
    محمد بن عثمان عَمری امام زمانہ(عج) کے دوسرے نائب خاص تھے۔ وہ ابتدائ میں امام زمانہ(عج) کے وکیل اور بعد میں سفیر کی حیثیت سے چالیس سال تک سرگرم عمل تھے اور والد کی وفات کے بعد امام زمانہ(عج) کی جانب سے آنے والی مکتوب کی بنیاد پر شیعیان اہل بیت(ع) کے امور معاملات ان کے سپرد کئے گئے۔ وہ بھی اپنے والد کی مانند امام عسکری(ع) کے معتمدین اور قریبی اصحاب میں شمار ہوتے تھے؛ چنانچہ ایک روایت کے ضمن میں ان کے بارے میں منقول ہے:
    عثمان بن سعید عَمری اور ان کا بیٹا دونوں ثقہ اور قابل اعتماد ہیں، وہ جو کچھ بھی تم (شیعیان اہل بیت(ع)) تک پہنچائیں وہ میری جانب سے ہے اور جو کچھ بھی کہتے ہیں میری طرف سے ہے۔ ان کی بات سنو اور ان کی پیروی کرو، کیونکہ وہ ثقہ اور میرے امین ہیں۔ عثمان بن سعید عَمری سنہ 265 ہجری سے سنہ 305 ہجری (یعنی 40 سال) تک امام زمانہ(عج) کے نائب خاص تھے۔

    حسین بن روح

    بغداد میں نائب ثالث حسین بن روح نوبختی کا مزار
    حضرب مہدی علیہ السلام کے تیسرے نائب ابوالقاسم حسین بن روح نوبختی دوسرے نائب جناب محمد بن عثمان عَمری کے معتمدین اور قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے تھے۔[9] محمد بن عثمان نے مسائل کے لئے رجوع کرنے والے افراد کو حسین بن روح کی طرف رجوع کرنے کی تلقین کرتے ہوئے ان کی جانشینی کے لئے راستہ ہموار کیا تھا اور اپنی زندگی کے آخری ایام میں امام زمانہ(عج) کے حکم پر ان کی جانشینی کا اعلان کیا۔ اس کے بعد شیعیان آل رسول(ص) اموال شرعیہ ان کے سپرد کرتے تھے، مسائل ان سے پوچھتے تھے اور امام زمانہ(عج) کے ساتھ رابطے کے لئے ان سے رجوع کرتے تھے۔ ان کی نیابت و جانشینی کا دور 21 سال تھا اور سنہ 305ہجری سے 326ہجری تک جاری رہا۔]
    حسین بن روح [نوجوانی میں] امام حسن عسکری علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے اور بغداد میں مقیم ابو علی بن ہمام، ابو عبد للہ بن محمد الکاتب، ابو عبد للہ الباقطانی، ابو سہل اسمٰعیل بن علی نوبختی، ابو عبد اللہ بن الوجناء سمیت دیگر شیعہ اکابرین کی موجودگی میں دوسرے نائب خاص جناب ابو جعفر عَمری کے جانشین کے طور پر متعین ہوئے ہیں۔]

    علی بن محمد سَمُری‏

    بغداد میں علی بن محمد سمری کا مزار
    ابو الحسن علی بن محمد سَمُری امام مہدی علیہ السلام کے چوتھے اور آخری نائب خاص ہیں جنہیں حسین بن روح نے آپ(عج) کے حکم پر امام(عج) کے نائب اور اپنے جانشین کے طور پر متعین کیا اور ان کی نیابت کا دور سنہ 329ہجری تک تھا۔

    اقدامات ‏

    نواب اربعہ کے اقدامات کو مختلف زمروں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

    خفیہ سرگرمیاں

    قابل توجہ ہے کہ اس دور میں نہ صرف امام زمانہ(عج) نظروں سے اوجھل تھے بلکہ آپ(عج) کے سفراء بھی غیر معروف اور انجانے رہ کر اور لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائے بغیر، کردار ادا کرتے تھے۔ علاوہ ازیں شیعیان امامیہ اس دور میں سلطنت کی سرنگونی کے لئے چلنے والی تحریکوں اور انقلابی منصوبوں سے دور تھے جس کی وجہ سے انہیں زیادہ خطرات کا سامنا نہ تھا اور وہ حالات کا انتظام بہتر انداز سے کرتے تھے۔
    اسی موقف اور روش کی بنا پر شیعیان امامیہ نے عباسی سلطنت کے مرکز میں اپنی وسیع اور فعال موجودگی کا تحفظ کیا اور ایک باقاعدہ اور تسلیم شدہ اقلیت کے طور پر اپنے آپ کو عباسی سلطنت، نیز بغداد میں با اثر اور انتہا پسند سنی جماعتوں پر مسلط کرلیا تھا۔ اس دور میں بغداد میں شیعہ مرکزیت دوسرے شہروں اور ملکوں کے اہل تشیع کے امور و معاملات کی نگرانی کرتے ہوئے ان کی مذہبی زندگی کو منظم اور متشکل کیا۔ ]

    خلافت کے نظامات میں اثر و رسوخ

    اس زمانے میں عام طور پر شیعیان اہل بیت(ع) اور خاص طور نواب اربعہ کی عمومی روش اور سماجی و سیاسی پالیسیاں کچھ اس طرح سے مرتب کی گئی تھیں کہ کئی شیعہ اکابرین خلفاء کے دربار میں پہنچ گئے اور منصب وزارت تک پہنچ گئے۔ انہیں اس سلسلے میں معصومین علیہم السلام کی حمایت حاصل تھی۔]

    غالیوں کے خلاف جدوجہد

    بیشتر ائمہ(ع) کی حالات زندگی میں، ان کی علمی و ثقافتی اور سیاسی حیات کا مطالعہ کرتے ہوئے ہم دیکھتے ہیں کہ ان سب نے اندرونی تشیع کے شعبوں اور شاخوں ـ جن میں سب سے زیادہ اہم غلات (غالیوں) اور غلو کا مسئلہ تھا ـ کے خلاف جدوجہد کی ہے۔ ظہور ائمہ(ع) کے اس آخری دور میں غالیوں کا اثر و رسوخ بڑھ گیا اور جعفر بن علی المعروف "جعفر کذاب" جیسے بعض فرزندان ائمہ(ع) کی ان کے ساتھ ہمراہی نیز بعض شیعہ شخصیات کی طرف سے ان کی حمایت، کے بدولت ان کی سرگرمیوں کو رونق ملی۔
    اس دور میں معرض وجود میں آنے والے غلات میں سے ایک محمد بن نُصَیر نامی شخص تھا جو فرقہ نُصَیریہ کا بانی و مؤسس ٹہرا۔ امام ہادی(ع) کے زمانے میں بھی اور بعد کے زمانوں میں اس کی طر ف سے بعض غلو آمیز دعووں کی نسبت دی گئی ہے۔

    شیخ طوسی کہتے ہیں: محمد بن نُصَیر نے دوسرے نائب خاص کے دور میں ائمہ کے لئے ربوبیت کے قائل ہونے سمیت سابقہ غالیوں کے غلو آمیز عقائد اور محارم کے ساتھ نکاح کے جواز جیسے مسائل کی پرچار کی۔ ابو جعفر نے ان پر لعن و نفرین کرتے ہوئے اس سے بیزاری کا اعلان کیا۔ اس کے پیروکار اس کے بعد تین فرقوں میں بٹ گئے اور یہ فرقے زیادہ تر باقی نہ رہ سکے۔]
    دیگر افراد میں سے ایک ـ جو ابتداء میں فقہائے امامیہ اور ائمہ(ع) کے وکلاء میں شمار ہوتا تھا ـ محمد بن علی شلمغانی تھا، وہ اپنے اعلی دینی منصب کے باوجود مزید جاہ و شہرت حاصل کرنے کی غرض سے غلوّ کی طرف مائل ہوا اور اس نے خاص طور پر حلول کے نظریئے پر زیادہ زور دیا۔
    اس کا تعلق بنو بسطام کے مشہور خاندان سے تھا، اور وہ اپنے خاندان کے افراد کو دھوکا دینے اور اپنے اوپر حسین بن روح نوبختی کی لعنت و نفرین کا جواز پیش کرنے کے لئے کوشاں تھا اور کہتا تھا: "میں نے بعض اسرار و رموز کا ادراک کیا ہے [جو دوسروں کے لئے میسر نہيں ہیں] اور اب جب میں نے ان اسرار کو فاش کرنے کا اہتمام کیا ہے تو بعض لوگ مجھ پر لعن و نفرین کررہے ہیں!]

    حضرت مہدی(عج) کےبارے میں شکوک و شبہات کا ازالہ

    نواب اربعہ کا ایک حساس اقدام امام زمانہ(عج) کے وجود مقدس کے سلسلے میں شکوک و شبہات کا ازالہ کرنا تھا۔ یہ کوششیں زیادہ تر پہلے اور دوسرے نائبین خاص کے زمانے میں انجام پائیں اور اس کے بعد بھی غیبت صغرٰی کے آخر تک اس سلسلے میں بعض مسائل پیش آیا کرتے تھے اور نواب اربعہ ان کا جواب دے دیتے تھے۔ امام زمانہ(عج) کی جانب سے موصولہ اور دستیاب توقیعات کا ایک بڑا حصہ بھی اسی مسئلے سے تعلق رکھتا ہے۔ شیخ طوسی کی روایت کے مطابق ابن ابی غانم قزوینی اور شیعیان اہل بیت(ع) کے ایک گروہ کے درمیان ایک بحث چھڑ گئی؛ قزوینی نے کہا کہ امام عسکری(ع) کی کوئی اولاد نہ تھی جس کے بعد شیعہ زعماء نے بعض مکاتیب و مراسلات امام مہدی علیہ السلام کی جانب روانہ کیا اور آپ(عج) سے جواب مانگا تاکہ اس بحث و جدل کا خاتمہ کیا جاسکے۔
    جواب میں امام زمانہ(عج) کے اپنے خط مبارک سے ایک خط موصول ہوا جس میں آپ(عج) نے امامت و ولایت کے موضوع کا جائزہ لیا ہے اور سابقہ ائمہ طاہرین(ع) کی طرف اشارہ کیا ہے اور فرمایا ہے:
    "‌گمان نہ کرو کہ خداوند متعال نے گیارہویں امام کے بعد خدا نے اپنے دین کو باطل کرنیا ہے اور اپنے اور اپنے بندوں کے درمیان رابطے کو منقعط کرلیا ہے! ہرگز ایسا نہیں ہے اور اور قیام قیامت تک بھی ایسا نہ ہوگا۔"
    مذکورہ توقیع میں اس کے بعد امام زمانہ(عج) نے غیبت کی ضرورت اور ستمگروں کی آنکھوں سے انجناب کے اوجھل رہنے کے لازمی ہونے کے دلائل بیان ہوئے ہیں۔]
    ایک دوسری روایت زیادہ مفصل توقیع کا پتہ دیتی ہے جو امام عسکری(ع) کے بھائی جعفر [کذاب] کے دعوٰیِ امامت کے جواب میں صادر ہوئی اور اس توقیع میں بھی ائمہ(ع) کی امامت کے مسئلے کا جائزہ لیا گیا ہے اور ان کے علم و عصمت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے؛ امام(عج) نے اس توقیع میں جعفر کی لاعلمی اور حلال و حرام سے عدم آگہی اور حق و باطل اور محکم و متشابہ کی عدم تشخیص کی طرف اشارہ کرنے کے بعد سوال اٹھایا ہے کہ: ان حالات میں جعفر کس طرح امامت کا دعوی کرسکتا ہے؟]
    محمد بن ابراہیم بن مہزیار کے والد گیارہویں امام(ع‏) کے وکیل تھے، بھی اس سے سلسلے میں شک و تردد سے دوچار ہوچکے تھے لیکن امام زمانہ(عج) کی طرف سے توقیعات وصول کرنے کے بعد ان کا شک و تردد زائل ہوا۔]
    اس سلسلے میں ناحیہ مقدسہ سے موصول توقیعات میں سے ایک میں امام زمانہ(عج) نے شکاکین کو جواب میں اپنے وجود شریف کو ثابت کرے کے بعد بعض فقہی مسائل کی وضاحت فرمائی ہے۔]
    اس میں شک نہیں ہے کہ نواب خاص امام زمانہ(عج) کے وجود شریف کے اثبات پر اصرار کرتے تھے اور شکوک و شبہات کا ازالہ کرتے تھے لیکن پیروان اہل بیت سے تقاضا کرتے تھے کہ امام زمانہ(عج) کی خصوصیات جاننے پر زیادہ اصرار نہ کریں اور اس رویے کا مقصد آپ(عج) کی سلامتی کا تحفظ تھا۔ [اور پھر اللہ کے ہاں طے پایا تھا کہ آپ(عج) لوگوں کے درمیان رہ کر نظروں سے اوجھل رہیں اور اس کے لئے ضروری تھا کہ آپ کی خصوصیات بھی عام لوگوں کے ہاں جانی پہچانی نہ ہوں]۔

    وکلا کی تنظیم

    بعض روایات میں ہے کہ وکلاء کا نظام، مختلف علاقوں کے امور و معاملات کا نظم و نسق سنبھالنے اور شیعیان اہل بیت(ع) اور ائمہ معصومین(ع) کے درمیان رابطے کی غرض سے، امام سجاد(ع) کے دور سے شروع ہوا تھا تاہم امام کاظم(ع) کے بعد اس نظام کی موجودگی قطعی اور مسلمہ ہے۔ غیبت کے آغاز سے امام زمانہ(ع) کے ساتھ وکلاء کا براہ راست تعلق منقطع ہوا اور ارتباط کا محور و مرکز وہ نائب خاص بنا جو امام زمانہ(ع) کی طرف سے متعین ہوا تھا۔
    ایک روایت بتاتی ہے کہ لوگ جو اموال وکلاء کے دیتے تھے ان سے رسید بھی وصول کرتے تھے لیکن جو اموال نائب خاص کو دیئے جاتے تھے ان کے عوض کسی رسید کا مطالبہ نہیں کیا جاتا تھا۔
    چنانچہ ابو جعفر محمد بن عثمان عَمری (دوسرے نائب خاص] نے حسین بن روح نوبختی کی نیابت کا اعلان کرتے ہوئے شیعیان اہل بیت(ع) کو ہدایت کی کہ ان سے کسی قسم کی رسید کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ اہواز، سامرا، مصر، حجاز، یمن اور ایران کے علاقوں خراسان، رے، قم وغیرہ میں امام(عج) کے وکلاء موجود تھے جن کا ذکر مختلف قسم کے مسائل کے ضمن میں شیخ طوسی کی کتاب الغیبہ اور شیخ صدوق کی کتاب کمال الدین میں آیا ہے۔

    امام مہدی(عج) کو مخفی رکھنا

    تاریخ و حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ امام زمانہ(عج) عراق، مکہ اور مدینہ میں رہتے تھے اور نائبین خاص کسی وقت آپ(عج) سے ملاقات کرسکتے تھے۔ اور کبھی اصحاب خاص میں سے بھی بعض افراد آپ(عج) کے حضور شرفیاب ہوسکتے تھے، جیسا کہ سطور بالا میں محمد بن احمد قطان کی طرف اشارہ ہوا۔
    نیز جب ابو طاہر محمد بن علی بن بلال ابو جعفر عَمری کی نیابت میں شک و تردد سے دوچار ہوئے تو ابوجعفر انہیں امام مہدی علیہ السلام کے حضور لے گئے تا کہ وہ ان کی نیابت خاصہ کے بارے میں امام زمانہ(عج) کی تائید و تصدیق کو خود سنیں اور اس کے بعد ایک عمومی اجتماع میں ان سے اعتراف لیا کہ امام زمانہ(عج) نے حکم دیا ہے کہ لوگ شرعی واجبات جناب عَمری کو ادا کریں۔]
    ان تمام مسائل کے باوجود نائبین خاص یا نواب اربعہ کی ایک اہم ترین ذمہ داری یہ تھیں کہ امام علیہ السلام کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل رکھیں۔
    جس وقت حسین بن روح نوبختی نے امام زمانہ(عج) کی نیابت خاصہ کا عہدہ سنبھالا، اسی وقت بزرگ شیعہ بزرگ جناب ابو سہل اسمعیل بن علی نوبختی بغداد میں مقیم تھے اور اعلی منزلت کے مالک تھے۔
    ابن روح کے تعین کے بعد ایک شخص نے ابو سہل سے حسین بن روح کے تعین و تقرر کی حکمت کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا: جن لوگوں نے انہیں منتخب کیا ہے وہ ہم سے زیادہ بصیر و بینا ہیں کیونکہ میرا کام خصم کو ساتھ بحث و مناظرہ اور مذاکرہ ہے۔ اگر مجھے امام(ع) کا مقام سکونت معلوم ہو اور میں بحث و جدل میں قرار پاؤں اور مجھے امام(عج) کا وجود ثابت کرنا پڑے اور میرے پاس کوئی چارہ نہ ہو تو ممکن ہے کہ میں امام(عج) کا مقام رہائش مخالفین کے سامنے فاش کردوں! جبکہ ابوالقاسم حسین بن روح نے اگر امام(عج) کو اپنی عبا میں چھپارکھا ہو تو ممکن نہيں ہے کہ کسی کو ان کا پتہ و نشانہ دیں حتی اگر قینچی سے اس کے بدن کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جائے۔


No comments