دجال؛ ایک شخص یا ایک موجود کا نام ہے
دجال؛ ایک شخص یا ایک موجود کا نام ہے جو بعض احادیث کے مطابق امام مہدی علیہ السلام کے بڑے دشمنوں میں سے ہے۔ اسلامی روایات میں منقول ہے کہ دجال اصفہان
کے یہودیہ نامی قریے سے خروج کرے گا، دشواریوں اور قحط کے زمانے میں ظاہر
ہوگا اور ایک جماعت کو دھوکا دے کر اپنی جانب مائل کرے گا اور آخر کار امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں ختم ہوجائے گا۔ ابن کثیر کا کہنا ہے کہ اس کا ظہور اصفہان کے یہودی محلے سے ہوگا۔]
لفظ مسیح دجال [عربی میں المسیح الدجال (=
جھوٹا مسیح) طلوع اسلام سے 400 سال قبل سریانی کے لفظ "Mšīḥā Daggālā" سے
عربی میں منتقل ہوا ہے جس کا یونانی مترادف لفظ "antichristos" ہے جس کو
فارسی میں ضِدِّ مسیح کہا جاتا ہے۔ اسلامی روایات کے مطابق دجال آخر الزمان میں امام مہدی علیہ السلام کے ظہور قبل مشرق سے ظاہر ہوگا۔ وہ بعض حیرت انگیز افعال کے ذریعے بڑی تعداد میں لوگوں کو فریب دے گا۔ وہ بیت المقدس میں الوہیت کا دعوی کرے گا اور پھر چالیس دن یا چالیس سال تک حکمرانی کے بعد عیسی مسیح یا مہدی یا ان دونوں کے ہاتھوں ہلاک ہوجائے گا۔.۔]
شیعہ کتب حدیث میں دجال کے خروج اور ظہور سے قبل اس کے فتنوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں کرتے؛ صرف ایک اشارہ پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ "دجال امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں مارا جائے گا" اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام
کے ہاتھوں ہلاک ہوگا۔ ان روایات میں دجال کے فتنوں، اس کے چہرے اور شکل و
شباہت، اس کے پیروکاروں وغیرہ کی طرف کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا۔
لغوی معنی
لفظ دجال مادہ "د ج ل" سے ماخوذ ہے جس کے معنی بہت زیادہ جھوٹے اور فریبی شخص کے ہیں۔]
دجال دوسرے ادیان میں
دجال عیسائیت میں
عہدید جدید میں صرف رسالۂ یوحنا میں لفظ دجال متعدد بار آیا ہے اور اس سے مقصود ایسا شخص ہے جو مسیح کی مخالفت و مزاحمت کرے گا؛ اور دعوی کرے گا کہ وہ خود مسیح ہے۔]
یوحنا کے مکتوب اول میں ہے: "جھوٹا کون ہے سوا اس شخص کہ جو عیسی
کے مسیح ہونے کا انکار کرے، وہ دجال ہے جو باپ بیٹے کا انکار کرتا ہے"۔
اسی رسالے میں مذکور ہے کہ "کیا تم نے سنا ہے کہ دجال آئے گا؛ اس وقت بھی
بہت سے دجال ظاہر ہوچکے ہیں اور یہیں سے میں سمجھتا ہوں کہ یہ آخری گھڑی
ہے"۔ اسی رسالے میں کہا گیا ہے: "جو شخص اس روح کا انکار کرے جو عیسی میں
مجسم ہوا ہے اس کا خدا سے تعلق نہیں ہے اور یہی ہے دجال کی روح جس کے بارے
میں تم نے سنا ہے کہ وہ آئے گا اور اس وقت بھی دنیا میں ہے"۔ صاحب کتاب قاموس
کتاب مقدس" سمیت بعض عیسائی علماء، دجال کو اسم عام سمجھتے ہیں اور ان کے
خیال میں دجال وہ لوگ ہیں جو مسیح کو جھٹلاتے ہیں اور انجیل کی عبارات سے بھی یہی بات سامنے آتی ہے۔ نیز کہا گیا ہے کہ "دجال یا دشمنِ مسیح وہ شخص ہے جو آخر الزمان میں اٹھے گا اور مسیح رجعت کرے گا اور اس کو ہلاک کر ڈالے گا۔]
دجال عبرانی زبان میں
لفظ دجال عبرانی (یا عبری) نیز یہودی
تعلیمات میں "دشمنِ خدا" کو کہا جاتا ہے اور دو الفاظ "دج" (= دشمن، معاند
اور ضد) اور "ال" (= خدا) سے مرکب ہے۔ (عبری میں "ال" اور "ایل" کے معنی
خدا کے ہیں بطور مثال لفظ "اسرائیل" کے معنی "خدا کا دوست" کے ہیں گوکہ
یہودیوں کی تفسیر میں اس کے معنی "خدا پر غلبہ پانے والے شخص" کے ہیں!)]
دجال کتب مقدس میں
دجال کی داستان عیسائیوں کی مقدس کتب کے درمیان صرف مکتوبات یوحنا میں مذکور ہے۔ رسول اللہ(ص)
نے فرمایا ہے کہ "دجال کا تذکرہ سابقین کے ہاں ہوا ہے لیکن وہ آئے گا
مستقبل میں"؛ ان ہی روایات میں سے ایک یہ ہے جہاں آپ(ص) نے فرمایا ہے: "...الدَّجَّالَ اسْمُهُ فِی الْأَوَّلِینَ وَ یخْرُجُ فِی الْآخِرِینَ...... "]
انجیل میں یہ لفظ یوحنا کے مکتوبات میں مذکور ہے اور کہا گیا ہے کہ جو شخص مسیح یا "باپ اور بیٹے" کا انکار کرے وہ دجال ہے۔ اسی بنا پر عیسائیوں
کی مقدس کتب کے انگریزی تراجم میں اس کو اینٹی کرسٹ [Antichrist] (= دشمن
مسیح) کے عنوان سے متعارف کرایا گیا ہے جو یونانی اصطلاح اینٹی
کرسٹوس[antichristos] کا مترادف اور ہم معنی ہے۔ جیسا کہ یوحنا کے مکتوب اول آیت 18 میں کہا گیا ہے:
"اے بچو! یہ آخری گھڑی ہے اور جیسا کہ تم نے سنا ہے دجال آرہا ہے،
فی الحال بھی بہت سے دجال ظاہر ہوچکے ہیں اور میں اس حقیقت کو جانتا ہے کہ
یہ آخری گھڑی ہے"۔ اسی رسالے کی آیات 22 اور 23 میں ہے کہ "جھوٹا ہے سوا
عیسی کے مسیح (= یعنی نجات دہندہ) ہونےکا انکار کرے اور وہ دجال ہے جو باپ
اور بیٹے کا انکار کرتا ہے"۔
دجال اسلام میں، مغربی مآخذ کی روشنی میں
اسلامی روایات اور رسول اللہ(ص) سے منقول روایات میں ظہور امام مہدی(عج) اور آخر الزمان کی علامات میں سے ایک دجال کا خروج ہے۔ (اہل سنت کی) بعض روایات میں دجال کے خروج کو قیامت
کی نشانی گردانا گیا ہے۔ دجال کی ظاہری صورت کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہ
یک چشم (= کانا) شخص ہے جو گنگریالے بالوں والا شخص ہے اور اس کے ماتھے پر
لفظ "کافر" لکھا ہوا ہے۔ دجال آخر الزمان میں امام زمانہ(عج) کے ظہور سے قبل مشرق سے اور ایک احتمال کے مطابق خراسان (یا اصفہان) سے خروج کرے گا؛ حیرت انگیز اقدامات کے ذریعے بہت سوں کو دھوکا دے گا اور بڑی تعداد کو اپنے گرد اکٹھا کرے گا۔ دجال یروشلم (= بیت المقدس)
میں الوہیت کا دعوی کرے گا۔ وہ چالیس دن یا چالیس سال تک حکومت کرے گا اور
بحر ہند کے ایک جزیرے میں رہائش رکھے گا جہاں سے موسیقی کی صدا سنائی دیتی
ہے۔ دوسری روایات کے مطابق وہ ہندوستان کے ایک جزیرے کے ایک پہاڑ میں رہائش پذیر ہے اور شیاطین اس کو کھانا کھلاتے ہیں۔]
دجال کی داستان اسلامی مآخذ میں
اہل سنت کی بہت سے روایات میں دجال کا خروج قیامت کے بپا ہونے کی علامت قرار دیا گیا ہے۔ شیعہ کتب حدیث میں صرف چند روایات میں دجال کو امام مہدی علیہ السلام کے علائم ظہور مہدی(عج) کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے جو سند کے لحاظ سے معتبر اور قابل قبول نہیں ہیں۔]
اہل سنت کی روایات میں دجال کے لئے یہ اوصاف بیان کئے گئے ہیں:
- ربوبیت اور الوہیت کا دعوی کرتا ہے۔]
- طویل عمر کا مالک ہے۔]
- ان کی خواہش برآوردہ ہوتی ہے۔]
- اس کے پاس پانی اور آگ ہے اور اس کا پانی آگ ہے۔]
- اندھے کو بصارت لوٹاتا ہے اور مبروص کو شفا دیتا ہے]
- اس کے پاس جنت اور آگ ہے اور وہ بارش برساتا ہے اور مردے کو زندہ کرتا ہے۔]
- وہ لوگوں کو قتل کرتا ہے اور پھر زندہ کرتا ہے۔]
- اس کے پاس سفید پانی کی ایک نہر اور آگ کی ایک نہر ہے]
دجال اہل سنت کی روایات میں
اہل سنت کی روایات میں خروج دجال کو قیامت کی نشانی قرار دیا گیا ہے اور دجال سے متعلق زیادہ تر روایات کو احمد بن حنبل نے اپنی کتاب مسند میں، ترمذی نے اپنی کتاب سنن میں، ابن ماجہ قزوینی نے اپنی کتاب سنن میں، مسلم بن حجاج نے اپنی کتاب صحیح میں نیز ابن اثیر نے اپنی کتاب "النہایۃ في غریب الحدیث" میں عبداللہ بن عمر، ابو سعید خُدری اور جابر بن عبداللہ انصاری سے نقل کی ہیں۔
دجال شیعہ منابع و مآخذ میں
دجال کے معنی جھوٹے اور مکار شخص کے ہیں۔ دجال کی اصل داستان عیسائی مآخذ میں نقل ہوئی ہے۔ انجیل میں یہ لفظ بارہا استعمال ہوا ہے اور اس کا تذکرہ "مسیح کے دشمن" (= Antichrist) پر کیا گیا ہے۔ شیعہ میں اس کا تذکرہ بہت محدود ہے اور صرف چند ایک روایات میں اس کے خروج کو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی ایک علامت گردانا گیا ہے۔ زیادہ تر شیعہ محققین نے یہ روایات اہل سنت کے مآخذ سے نقل کی ہیں۔
کامل سلیمان بھی خطیب بغدادی کی کتاب المتفق والمفترق" اور سیوطی کی الحاوی للفتاوی
وغیرہ کے حوالے سے لکھتے ہیں: دجال کے بارے میں مجھے شک ہے کیونکہ اس کے
بارے میں منقولہ روایات غیر معتبر ہیں اور ان کے درمیان ایسی چیزیں ہیں جن
سے رسول اللہ(ص) اور ائمہ(ع) بری ہیں۔ ان کے درمیان موضوعہ روایات ہیں اور سازشی لوگوں نے ان میں اپنی ریشہ دوانیاں کی ہیں..]
شیعہ کتب حدیث میں دجال کے خروج اور ظہور سے قبل اس کے فتنوں کی طرف کوئی اشارہ نہیں ہے؛ صرف ایک اشارہ پایا جاتا ہے اور وہ یہ کہ "دجال امام مہدی علیہ السلام کے ہاتھوں مارا جائے گا" اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ وہ حضرت عیسی علیہ السلام
کے ہاتھوں ہلاک ہوگا۔ ان روایات میں دجال کے فتنوں، اس کے چہرے اور شکل و
شباہت، اس کے پیروکاروں وغیرہ کی طرف کوئی اشارہ نہیں پایا جاتا۔
اگر دجال کی داستان صحیح ہو بھی تو اس کے لئے بیان ہونے والی اکثر خصوصیات افسانوں سے مشابہت رکھتی ہیں۔ قطب الدین راوندی نے عامہ کے طرق سے نقل کیا ہے کہ اور علامہ مجلسی نے بھی یہ روایت قطب راوندی سے نقل کی ہے اور یہی روایت کامل سلیمان بھی اہل سنت کے منابع الحاوی للفتاوی، صحیح بخاری، صحیح مسلم، بشارۃ الاسلام اور دجال کے بارے میں روایت نقل کرنے والی کتب کے حوالے سے نقل کی ہے جو کچھ یوں ہے: وایت یوں ہے کہ "عبداللہ بن عمر نے کہا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: "رسول اللہ(ص) نے فرمایا: "نوح(ع) کے بعد ہر پیغمبر نے اپنی قوم کو دجال کے فتنے سے خبردار کیا ہے اور میں بھی تمہیں خبردار کرتا ہوں"۔
دجال کے لغوی معنی کو مد نظر رکھ کر ـ لگتا ہے کہ دجال ایک اسم خاص
اور ایک خاص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ہر وہ شخص جو کھوکھلے دعوے کرے اور
مختلف اسباب و وسائل بروئے کار لاکر لوگوں کو دھوکہ اور فریب دینا چاہے وہ
دجال ہے۔ چنانچہ بہت سے مسلم دانشور اس لفظ کو ایک اصطلاح عام سمجھتے ہیں
اور ہر اس شخص پر اس کا اطلاق کرتے ہیں جو دھوکا، فریب، مکاری اور عیاری
کرتے ہیں، حق کو باطل میں مخلوط کرتے ہیں اور باطل کو حق کے لبادے میں
لوگوں میں رائج کرتے ہیں اور اپنے شیطانی مقاصد کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔
اس لحاظ سے کہا جاسکتا ہے کہ دجال ایک فرد نہیں بلکہ کئی دجالوں کا
ہونا ممکن ہے جو مختلف ادوار میں ظاہر ہوئے ہیں اور فتنہ انگیزیاں کرچکے
ہیں اور سست ایمان کے حامل افراد کو حیرت سے دوچار کرچکے ہیں۔ جن روایات
میں دجال کے خروج کی طرف اشارہ ہوا ہے ان سے معلوم ہوتا ہے کہ "دجال کے
خروج سے قبل ستر دجال خروج کریں گے" اس لحاظ سے دجال کا مسئلہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ گویا امام زمانہ(عج)
کے ظہور سے کچھ عرصہ قبل ایک مکار شخص جاہلی ثقافت کو زندہ رکھنے کی غرض
سے اپنی تمام تر کوششیں بروئے کار لائے گا تاکہ مکر و فریب کے ذریعے لوگوں
کو اس الہی اور آسمانی قیام و انقلاب اور اس کی حقیقت اور امام(عج) کی امامت
کی استواری کی نسبت شک و شببہے سے دوچار کردے۔ دجال کے بارے میں افراد نے
اپنے ذوق کے مطابق مختلف تجزیئے پیش کئے ہیں اور سب نے احتمال اور ظن و
گمان کی بنیاد پر اس کے بارے میں بحث کی ہے۔
دجال کا خروج
علی کورانی اپنی کتاب معجم احادیث المہدی علیہ السلام میں خطیب بغدادی کی کتاب المتفق المفترق سے اور وہ سیوطی کی کتاب الحاوی للفتاوی سے اور وہ ابو ہریرہ سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: "جب قسطنطنیہ کے غنائم تقسیم ہونگے دجال کے خروج کی خبر امام مہدی علیہ السلام اور آپ(عج) کے انصار و اصحاب کو پہنچے گی"۔]
شیخ حر عاملی سید ہبۃ اللہ موسوی کی کتاب مجموع الرائق کے حوالے سے اور وہ ابو سعید خدری، وہ جابر بن عبداللہ انصاری اور وہ امیرالمؤمنین علیہ السلام سے نقل کرتے ہیں کہ ظہور سے قبل بہت سی نشانیاں ظاہر ہونگی جن میں سے ایک دجال ہے۔[33]
پیدائش
بعض غیر قطعی و غیر یقینی روایات میں دجال کا مقام پیدائش اصفہان کا ایک قریہ ہے جس کا نام یہودیہ ہے</ref> بعض روایات میں ہے کہ یا سجستان یا خراسان میں پیدا ہوگا۔
خصوصیات اور عقائد و افکار
روایات میں [جن میں سے اکثر کا ماخذ اہل سنت
کی کتب ہیں] منقول ہے کہ دجال الوہیت کا دعوی کرے گا اور اس کی وجہ سے
دنیا میں فتنہ بپا ہوگا اور خونریزی واقع ہوگی۔ ان کتب میں مروی ہے کہ اس
کی ایک آنکھ مَلی ہوئی اور ممسوح ہے اور اس کی بائیں آنکھ ماتھے کے بیچ میں
واقع ہوئی ہے جو ستارے کی طرح چمکتی ہے اور خون کا ایک دھبہ اس کی آنکھ کے
وسط میں ہے۔ وہ بہت ہی جسیم اور تناور ہے، اس کی شکل عجیب و غریب ہے اور
سِحر میں بہت ماہر ہے۔ اس کے سامنے ایک سیاہ رنگ کا پہاڑ ہے جو لوگوں کو
روٹی کے پہاڑ کی صورت، نظر آئے گا اور اس کے پیچھے سفید رنگ کا پہاڑ ہوگا
جو اس کے سحر و جادو کی وجہ سے لوگوں کو صاف جاری پانی کی صورت، دکھائی دے
گا۔ وہ چلا کر کہے گا: "اے میرے بندو میں تمہارا بڑا اور اعلی پروردگار
ہوں"۔]
دجال ہر جگہ پہنچے گا لیکن مکہ، مدینہ اور بیت المقدس میں داخل نہیں ہوسکے گا۔ اس کے بیشتر پیروکار زنا زادہ یہودی اور صحرا نشین عرب ہونگے جن کے سروں پر تاج ہیں۔]
رسول اللہ الاعظم صلی اللہ علیہ و آلہ نے دجال کے بارے میں فرمایا: "مؤمنین میں سے جو بھی دجال کو دیکھے اس کے منہ پر تھوکیں اور سورہ مبارکہ حمد کی تلاوت کرے تا کہ اس ملعون کا سحر باطل ہو"۔]
طبق نقل امام صادق علیهالسلام، امیر مؤمنان علی علیهالسلام در ضمن خطبهای
طولانی فرمود: «حضرت مهدی (عج) با یارانش از مکّه به بیت المقدّس میآیند و
در آنجا بین آن حضرت و دجّال و ارتش دجّال جنگ واقع میشود، دجال و ارتش
او مفتضحانه شکست میخورند، به طوری که از اوّل تا آخر آنها به هلاکت
میرسند و دنیا آباد میشود». ]
آخر کار امام مہدی(عج) یا حضرت عیسی(ع) کے ہاتھوں ہلاک ہوجائے گا اور ایک روایت کے مطابق فلسطین میں بیت المقدس کے قریب "لد" کے دروازے کے قریب مارا جائے گا۔ ایک روایت میں ہے کہ دجال شام کے علاقے "عقبہ افیق" میں ہلاک کیا جائے گا۔
Post a Comment