Header Ads

ads header

سفیانی کا خروج



سفیانی کا خروج، جنگوں اور تنازعات کا ایک سلسلہ ہے جس کو بعض احادیث میں ظہور امام مہدی(عج) کے علائم میں شمار کیا گیا ہے۔ یہ جنگیں سفیانی کی سرکردگی میں سرزمین شام سے شروع ہونگی اور جزیرہ نمائے عرب تک پھیل جائیں گی۔ روایات میں ہے کہ سفیانی ابو سفیان کی نسل سے ہے اور امام مہدی علیہ السلام کا دشمن ہے۔ شیعہ احادیث کے مطابق سفیانی کے خروج کو امام مہدی(عج) کے ظہور کے قطعی علائم کے زمرے میں شمار کیا گیا ہے جن کا وقوع پذیر ہونا ناگزیر ہے۔ بعض احادیث کے مطابق، سفیانی کی سپاہ بیداء کے مقام پر نیست و نابود ہوجائے گی۔

نام اور نسب

اس کا نام عثمان بن عنبسہ ہے اور ابو سفیان کی اولاد سے ہے۔ وہ سرخ چہرے، سفید کھال اور نیلی آنکھوں کا مالک ہے۔ وہ روم کے کسی شہر (شاید موجودہ یورپ) سے اٹھے گا اور اس کے گلے میں صلیب لٹک رہا ہے۔]
امیرالمؤمنین (ع) نے فرمایا: "کلیجہ چبانے والی عورت کا بیٹا وادی یابس سے خروج کرے گا۔۔۔ اس کا نام عثمان اور باپ کا نام عنبسہ ہے"۔]
مسلم علماء میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے کہ اس کی وجۂ تسمیہ ابو سفیان سے اس کی نسبت ہے؛ کیونکہ وہ ابو سفیان کی نسل سے ہے جیسا کہ وہ جگرخوار عورت کی اولاد سے بھی ہے اس لئے کہ اس کی پردادی ہند ہے جو ابو سفیان کی بیوی تھی اور اس نے جنگ احد میں سید الشہداء حمزہ بن عبدالمطلب کو شہید کیا اور شدید بعض و عناد کی وجہ سے ان کا جگر چبایا اور اسے نگلنے کی کوشش کی۔

ذاتی خصوصیات

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: "سفیانی سرخ چہرہ اور سفید فام اور نیلی چشم شخص ہے، اس نے کبھی بھی اللہ کی بندگی نہیں کی ہے اور کبھی مکہ اور مدینہ کا دیدار نہیں ہے"۔]

سفیانی کی پلیدی اور سرکشی

راویان حدیث اس رائے پر متقق ہیں کہ وہ منافق شخص ہے، خدا اور اس کے پیغمبر(ص) نیز حضرت مہدی(عج) کا دشمن ہے۔ اس کے کردار اور ذاتی خصوصیات کے بارے میں شیعہ اور سنی مآخذ میں منقولہ احادیث تقریبا یکسان اور ایک جیسی ہیں۔ جیسا کہ ابن قبیل سے مروی ہے کہ:
سفیانی بد ترین حکمران ہے، وہ علماء اور فضلاء کو قتل اور نابود کرے گا اور اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ان سے مدد مانگے گا اور جو بھی اس کی درخواست ردّ کرے گا اس کو قتل کرے گا۔]

سفیانی کی تعلیمات اور دینی و سیاسی رجحانات

روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ سفیانی مغرب کا تعلیم یافتہ اور وہیں کی ثقافت کا حامل ہے اور عین ممکن ہے کہ وہیں پروان چڑھا ہو۔ شیخ طوسی کی الغیبہ میں "بشر بن غالب" سے بصورت مرسل مروی ہے کہ:
"سفیانی جو ایک جماعت کا سرکردہ ہوگا، نصرانیوں کی گلے میں صلیب لٹکائے ہوئے ہے اور رومیوں کی سرزمین سے خروج کرے گا۔]
روایت میں لفظ "منتصر" آیا ہے جو درحقیقت "متنصر" ہے [یعنی نصرانیت پر عمل پیرا)۔ جیسا کہ علامہ مجلسی  نقل کرتے ہیں کہ متنصر سے مراد وہ مسلمان ہے جس نے مسیحیت اختیار کی ہو اور جملہ "رومیوں کی سرزمین سے آئے گا"، یعنی وہ شخص جو روم (مغرب) سے شام میں آئے گا اور پھر ایک تحریک اٹھائے گا اور خروج کرے گا۔ البتہ یہ روایت چونکہ معصوم سے نقل نہیں ہوئی چنانچہ یہ قابل اعتماد نہیں ہوسکتی۔
بعض روایات میں ہے کہ وہ ایک منحرف اور گمراہ مسلمان ہے جو حضرت علی علیہ السلام کے خلاف بغض و کینہ دل میں رکھتا ہے۔
بہرحال شاید وہ مسیحی یا پھر منحرف مسلمان ہو کیونکہ روایات میں منقول ہے کہ وہ کوفہ پہنچ کر اعلان کرے گا کہ جو بھی علی بن ابی طالب کے ایک شیعہ کا سر لائے گا اسے ایک ہزار درہم بطور انعام، دیئے جائیں گے۔]

اہل بیت اور شیعہ کے ساتھ سفیانی کی عداوت

کینہ پروری سفیانی کی عیاں ترین خصوصیت ہے اور متعلقہ احادیث میں اس موضوع پر تاکید ہوئی ہے؛ یہی نہیں بلکہ احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس کا سیاسی کردار بھی مسلمانوں کے درمیان مذہبی فتنہ کھڑا کرنا ہے اور اس کا نصب العین یہ ہے کہ اہل سنت کی حمایت کے نعرے کی آڑ میں انہیں اہل تشیع کے خلاف مشتعل کرنا چاہتا ہے۔ حالانکہ وہ خود مغرب کے کفر پیشہ کے حکمرانوں اور یہودیوں کا کٹھ پتلی ہے۔
امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"ہم اور اولاد ابو سفیان دو خاندان ہیں جو خدا کی خاطر ایک دوسرے کے ساتھ دشمن ہیں۔ ہم نے کہا کہ خداوند متعال نے سچ کہا ہے اور انھوں نے کہا کہ خدا نے جھوٹ بولا۔۔۔ ابو سفیان رسول اللہ(ص) کے خلاف لڑا اور اس کا بیٹا معاویہ علی بن ابی طالب کے خلاف لڑا اور اس کا پوتا یزید بن معاویہ حسین بن علی کے خلاف لڑا اور سفیانی حضرت قائم کے خلاف لڑے گا"]
نیز امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
میں سفیانی کو (اس کے رفیق کے ساتھ) دیکھ رہا ہوں کہ کوفہ میں تمہاری سرسبز زمینوں میں بسیرا کئے ہوئے ہے اور اس کا منادی ندا دے رہا ہے کہ جو بھی ایک شیعہ کا سر لائے اس کا انعام 1000 درہم ہے۔ اس زمانے میں پڑوسی پڑوسی پر حملہ آور ہوگا اور کہے گا یہ شخص شیعہ ہے؛ اس کا سر قلم کرے گا اور ایک ہزار درہم انعام حاصل کرے گا۔ آگاہ رہو اور جان لو اس دن تمہاری حکمرانی حرام زادوں کے ہاتھ میں ہوگی...]

سفیانی کے خروج کا وقت

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:
"سفیانی کا مسئلہ حتمی ہے، اور اس کا خروج ماہ رجب میں ہوگا"۔]
ائمۂ معصومین علیہم السلام سے سفیانی ثانی (= دوسرے سفیانی) کے بارے میں وارد ہونے والی احادیث کے مطابق اس کا خروج رجب المرجب میں جمعہ کے روز ہوگا اور اس کے خروج کا مقام وادی یابس ہے یا ایک خشک اور بےآب و گیاہ صحرا ہے جو سرزمین شام میں واقع ہے۔
نیز امام صادق(ع) نے فرمایا:
"سفیانی کا خروج اور یمانی اور خراسانی کا خروج ایک سال کے ایک مہینے میں اور ایک روز ہوگا"۔]
سفیانی کا خروج ایک عظیم فتنے اور بڑی جنگ کے بعد ہوگا جو اہل مشرق اور اہل مغرب کے درمیان لڑی جائے گی۔ اور حدیث میں مذکورہ مشرق اور مغرب سے مراد بظاہر وہی حدود ہیں جن میں سفیانی ظاہر ہوگا نہ کہ اس دنیا کا مشرق و مغرب؛ کیونکہ بہت سی احادیث میں وارد ہوا ہے کہ مغرب کی وہ پہلی سرزمین جو تباہ ہوگی، سرزمین شام ہے۔

خروج سفیانی کا مقام

امیرالمؤمنین(ع) نے فرمایا:
"بعد ازاں جگر خوار (= ہند زوجۂ ابو سفیان) کا بیٹا وادی یابس سے خروج کرے گا حتی کہ دمشق کے منبر پر جا بیٹھے گا"۔]
امام صادق(ع) فرماتے ہیں:
"اس کے خروج کا وقت ماہ رجب ہے اور اس کا خروج آغاز سے انجام تک 15 مہینے کے عرصے پر محیط ہے۔ چھ مہینوں تک جنگ و پیکار میں مصروف رہے گا اور پانچ اہم مقامات [یعنی] دمشق ، حمص ، فلسطین ، اردن اور حلب پر قبضہ کرے گا اور نو مہینوں تک ان علاقوں پر حکومت کرے گا"۔]

سرکشی کی مدت

سفیانی طویل عرصے تک حکومت نہیں کرسکے گا اور اس کی سرکشی کا دور ابتداء سے حضرت قائم علیہ السلام کے ہاتھوں ہلاک ہونے تک 15 مہینوں کے عرصے پر محیط ہوگا۔ خروج کے آغاز میں شام پر حملہ کرے گا اور اپنے مخالفین کو شکست دے گا اور شام کے پانچ صوبوں (یعنی دمشق، حمص، فلسطین، اردن اور قنسرین یا بعض نسخوں یا روایات کے مطابق "فلزین") پر قابض ہوگا۔ شام کے لوگوں کی اکثریت اس کی اطاعت گزار ہوجائے گی سوائے اہل تشیع اور حق و حقیقت کے حامیوں کے۔
امام صادق(ع) نے فرمایا:
"سفیانی [کا خروج] (ظہور حضرت مہدی(عج) کے) حتمی علائم میں سے ہے، اس کا خروج ماہ رجب میں ہوگا، اور اس کے خروج سے لے کر انتہا تک کا عرصہ 15 مہینے ہوگا جن میں سے چھ مہینے تک وہ جنگوں میں مصروف ہوگا۔ اور جب وہ پانچ شہروں (= دمشق، حمص، فلسطین، اردن، حلب) پر قبضہ کرے تو اس کے بعد 9 مہینوں تک حکمرانی کرے گا اور حتی اس عرصے میں ایک دن کا بھی اضافہ نہ ہوگا"]
اس کی جارحیت اور تجاوز کا نشانہ شام اور عراق و حجاز ـ بالخصوص شہر مدینہ منورہ) ـ ہوگا، اہل حق ایک سے دو مہینوں تک اس کے شر سے محفوظ ہونگے، کیونکہ وہ اس عرصے میں خانہ جنگیوں اور مخالف جماعتوں کی سرکوبی میں مصروف ہوگا؛ لیکن اس کے بعد اسے کسی بھی غم و ہمّ کا سامنا نہ ہوگا سوائے اس کے کہ اہل دین کے ساتھ مخالفت اور جنگ کرے اس کی دشمنی زیادہ تر شیعہ اور اہل حق اور آل محمد صلی اللہ علیہ و آلہ سے ہوگی۔

سفیانی کا سرخ جھنڈا

داخلی صورت حال کو قابو میں لانے کے بعد دو اہم اور کیل کانٹے سے لیس لشکر ـ سرخ اور بروایتے سبز جھنڈوں تلے ـ تیار کرے گا؛ ایک کو عراق اور دوسرے کو حجاز کی تسخیر کے لئے روانہ کرے گا۔
بعض روایات میں اس موضوع کی طرف اشارہ ہوا ہے؛ منجملہ وہ روایت جو علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں ایک طویل حدیث کے ضمن میں امیرالمؤمنین(ع) سے نقل کی ہے:
"اور اس خروج کی بعض نشانیاں اور علامتیں ہیں اور سفیانی کا خروج سرخ جھنڈوں کے ساتھ ہوگا اور اس کا سپہ سالار بنو کلب کے قبیلے کا ایک شخص ہوگا"۔]
سرخ جھنڈا سفیانی کی فوقیت پسندی اور خون آشامی کی علامت ہے۔

سفیانی ایک یا دو

بے شک جس سفیانی کا وعدہ شیعہ اور سنی روایات میں دیا گیا ہے، وہ بےشک ایک ہی ہے لیکن بعض روایات ـ منجملہ ابن حماد کی روایت اور دوسرے راویوں کی منقولات ـ میں دو سفیانیوں کی طرف اشارہ ہے؛ سفیانی اول اور سفیانی دوئم؛ بعض روایات میں تیسرے سفیانی کا بھی تذکرہ آیا ہے۔
تاہم جس پر ملامت ہوئی ہے اور جو شرارت اور شرانگیز اقدامات کرے گا، وہ دوسرا سفیانی ہے، کیونکہ پہلا سفیانی سرزمین شام پر تسلط اور جنگ قرقیسیا کے بعد عراق کی جنگ میں ایرانی سپاہ اور سیاہ پرچموں کے انصار کے ہاتھوں شکست کھائے گا اور وہ زخمی ہوجائے گا اور شام کی طرف لوٹتے وقت راستے میں ہی ہلاک ہوجائے گا اور دوسرے سفیانی کو اپنا جانشین قرار دے گا تاکہ اس کے اہم مشن کو آگے بڑھائے۔

اگر یہ روایت صحیح ہو تو سفیانی اول ایک نابکار حکمران ہے جو اس سفیانی کے لئے ماحول فراہم کرے گا جس کا وعدہ دیا گیا ہے، جس طرح کہ یمانی، خراسانی اور سیاہ پرچموں کے اصحاب امام مہدی علیہ السلام کی تحریک کے لئے حالات سازگار بنائیں گے۔
ابن حماد کہتے ہیں:
"سفیانی خروج کرے گا اور بنی ہاشم اور تین پرچموں کے حامیوں اور اپنے دوسرے مخالفین کے خلاف لڑے گا اور غلبہ پائے گا اور وہ کوفہ میں داخل ہوگا تو کوفہ کے عوام عراق (کے دوسرے شہروں) کی طرف ہجرت کریں گے؛ بعدازاں سفیانی شام کی طرف پلٹتے وقت ہلاک ہوجائے گا اور ابو سفیان کی اولاد میں سے ایک شخص کو اپنا جانشین قرار دے گا جو غالب رہے گا اور لوگوں پر مسلط ہوگا... اور اصل سفیانی یہی ہے۔]

امام مہدی(عج) کے ساتھ جنگ کا مقام

بہت سی روایات میں مکہ اور مدینہ کے درمیان بیداء نامی مقام پر سفیانی کی سپاہ اور امام مہدی علیہ السلام کے ہراول دستوں کے درمیان جنگ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور تاکید ہوئی ہے کہ اس مقام پر سفیانی کا لشکر زمین میں دھنس جائے گا۔
ایک روایت میں ہے کہ امیرالمؤمنین(ع) نے آیت کریمہ "وَلَوْ تَرَى إِذْ فَزِعُوا فَلَا فَوْتَ وَأُخِذُوا مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ۔۔ (ترجمہ: اور کاش تم دیکھو وہ موقع جب وہ گھبرائے ہوئے ہوں گے مگر نکلنے کا موقع نہ ہو گا اور وہ قریبی جگہ سے پکڑ لیے جائیں گے) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرمایا:
"سفیانی کا لشکر مدینہ آئے گا حتی کہ مقام بیداء تک پہنچـے گا اور خداوند متعال انہیں زمین میں دھنسا دے گا۔]

سفیانی کا مقام ہلاکت

حضرت علی(ع) آیت کریمہ
"وَلَوْ تَرَى إِذْ فَزِعُوا فَلَا فَوْتَ وَأُخِذُوا مِن مَّكَانٍ قَرِيبٍ۔۔ (ترجمہ: اور کاش تم دیکھو وہ موقع جب وہ گھبرائے ہوئے ہوں گے مگر نکلنے کا موقع نہ ہو گا اور وہ قریبی جگہ سے پکڑ لیے جائیں گے) کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ہمارے قائم مہدی کے قیام سے کچھ عرصہ پہلے سفیانی خروج کرے گا اور ایک عورت کی حاملگی جتنے عرصے (9 مہینوں) تک حکومت کرے گا۔ اس کے سپاہی مدینہ میں داخل ہونگے؛ حتی کہ بیداء تک پہنچیں گے جہاں خداوند متعال انہیں زمین میں دھنسا دے گا"۔]
با فرض صحت روایت مذکور و مانند آن، تمامی اخباری که از فرو رفتن لشکری در صحرای بیدا خبر می‌دهند، و مورد قبول شیعه و سنی است، همگی مربوط به سفیانی و برنامه‌ها و کارهای او می شود.

حقیقی منتظرین کی ذمہ داریاں

شیعہ تفکر میں مہدی موعود کا انتظار ایک مسلمہ اصول ہے جس کو بہترین عمل قرار دیا گیا ہے۔ فرمایا گیا ہے کہ فراخی اور وسعت کا انتظار کرو اور غیبت طویل ہونے کی بنا پر اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں کیونکہ اللہ کی بارگاہ میں بہترین عمل ہے۔
امام زمانہ(عج) کے لئے ظہور سے پہلے بھی اور ظہور کے بعد بھی خروج سفیانی جیسے مسائل کا سامنا ہے جس کے لئے منتظرین کے بھی فرائض ہیں اور منتظرین کی صفوں میں کھڑا ہونے کے لئے ان فرائض پر عملدرآمد کی ضرورت ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ اور ائمۂ معصومین علیہم السلام کی احادیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیبت امام زمانہ(عج) کی غیبت کے زمانے میں منتظرین پر ذیل کی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں:
  1. امام زمانہ(عج) کی معرفت:
    منتظرین کا اہم ترین فریضہ زمانے کے امام کی شناخت و معرفت ہے کیونکہ جب تک امام کی معرفت نہ ہوگی ان کی منزلت کا ادراک ممکن نہ ہوگا اور جب تک یہ ادراک نہ ہوگا ان کی نسبت انسان کے فرائض کی تشخیص ممکن نہ ہوگی۔ رسول اللہ(ص) نے فرمایا: "مَنْ ماتَ وَلَمْ يَعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ ماتَ مَيْتَةً جاهِلِيَّةً۔"۔ ترجمہ: جو شخص اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر جائے وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔]
  2. تہذیب و تزکیہ اور اخلاقی فضائل کا حصول (ذاتی خودسازی):
    حقیقی منتظر ہر وقت اخلاقی فضائل و مکارم کے حصول اور اچھی انسانی صفات سے متصف ہونے کے لئے کوشاں رہتا ہے۔
  3. معاشرے کی اصلاح کے لئے کوشش (معاشرتی خودسازی):
    امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے معاشرتی برائیوں کے خلاف جدوجہد کرنا اور یوں ایک مہذب اور تزکیہ یافتہ نسل اور مفید نسل کی تربیت کرنا، خلاصہ یہ کہ ظہور امام مہدی(عج) کے لئے تمہیدات اور ماحول فراہم کرنا حقیقی منتظرین کے اہم فرائض میں شامل ہے کیونکہ جب تک ظہور کے لئے مقدمات و تمہیدات فراہم نہ ہونگے ظہور ممکن نہ ہوگا۔
  4. مہدوی نسل کی تربیت:
    کام کاج اور روزمرہ دنیاوی مصروفیات کی وجہ سے کبھی یہ حقیقت فراموشی کا شکار ہوجاتی ہے کہ ہم امام مہدی علیہ السلام کے خوانِ احسان پر بیٹھے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ میزبان کا ہمارے اوپر حق ہے اور وہ یہ کہ انہیں یاد رکھیں اور وہ خود ہماری دنیاوی اور اخروی مشکلات کے گرہ کشائی کرتے ہیں۔
    انتظار کا یہ ورثہ ہمارے اسلاف نے خون دل سے ہم تک پہنچایا ہے اور ہماری ذمہ داری ہے کہ اس کو اگلی نسلوں تک منتقل کریں؛ اور مہدی نسل کو پروان چڑھائیں؛ جو اپنے زمانے کے امام کو یاد کرے؛ اس جہاد عظیم کے لئے غیرمعمولی وسائل کی ضرورت نہیں ہے۔ ہر شخص کا فرض ہے کہ اپنے فرزندوں کو اس راہ کے سپاہیوں میں تبدیل کریں۔
  5. امام کی مدد کے لئے فکری، تہذیبی اور عسکری تیاری کرنا:
    امام زمانہ(عج) کو ظہور اور انقلاب کے لئے انصار و اعوان کی ضرورت ہے جو کم از کم کسی ایک شعبے میں مفید ہوں۔
  6. گناہوں سے توبہ
  7. امام کے نائبین کی اطاعت و پیروی:
    ائمہ(ع) نے فرمایا ہے کہ غیبت امام زمانہ(عج) کے زمانے میں لوگوں کی ذمہ داری ہے کہ اپنے تمام امور اور واقعات و حوادث میں جامع الشرائط فقہاء (نُواب عام) سے رجوع کریں اور وہ جو احکام شرعی معیاروں کے مطابق جاری کرتے ہیں، ان کی تعمیل کریں۔
  8. امام کی سلامتی اور تعجیل فَرَج کے لئے دعا کرنا:
    حقیقی منتظر ہر صبح اور شام خلوص نیت سے خداوند مہربان کی بارگاہ سے اپنے امام زمانہ(عج) کی سلامتی اور تعجیل فَرَج کے لئے دعا کرتے ہیں۔
  9. امام کی سلامتی کے لئے صدقہ دینا
  10. امام کی نیابت میں عبادی اعمال بجا لانا جیسے: نماز اور قرآن پڑھنا اور زیارت پڑھنا۔
  11. ان مقامات کی طرف توجہ دینا جنہیں امام زمانہ(عج) کی توجہ حاصل ہے جیسے: مشاہد مشرفہ اور حرم ہائے مطہر، مسجد سہلہ، مسجد جمکران وغیرہ
  12. امام زمانہ(عج) سے توسل کرنا اور اس کے لئے اور آپ(عج) کی وہ زیارات اور دعائیں پڑھنا جو مفاتیح الجنان میں مندرج ہیں؛ منجملہ:
    1. ہر صبح نماز کے بعد دعائے عہد پڑھنا: "اللهم رب النور العظیم و رب الكرسى الرفیع ..."
    2. ہر عصر جمعہ دعائے معرفت "اللهم عرفنى نفسك فانك لم ان لم تعرفنى نفسك ..." پڑھنا
    3. وہ دعا جو حاجت برآری کے لئے نقل ہوئی ہے اور اس عبارت سے شروع ہوتی ہے: "الهى عظم البلاء و برح الخفاء ..."
    4. امام زمانہ(عج) کی سلامتی کی دعا پڑھنا جو اس عبارت سے شروع ہوتی ہے: "اللهم كن لولیك الحجة ابن الحسن ..."
    5. دعائے حضرت مہدی علیہ السلام جو اس عبارت سے شروع ہوتی ہے: "اللهم ارزقنا توفیق الطاعة وبعد المصیبته ..."
    6. زیارت آل یاسین پڑھنا۔

No comments