انتظار اہل سنت کی نظر میں
امام مہدی علیہ السلام کا انتظار تشیع کے لئے مختص نہیں ہے؛ مہدی(عج) کے بارے میں بہت سی متواتر احادیث اہل سنت کے منابع و مآخذ سے صحیح اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہیں جن میں شک نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ شیعہ امامیہ کے منابع میں ایسی ہی احادیث نقل ہوئی ہیں۔
عالم اسلام میں بھی تمام مذاہب اور فرقوں اور مکاتب نے اصولی طور پر
اس مسئلے کو قبول کیا ہے اور اس عقیدے کے دفاع اور تشریح کے لئے متعدد کتب
لکھی ہیں۔]
اہل سنت کے ہاں یہ ایک مسلمہ اور ناقابل انکار حقیقت ہے کہ قریش میں سے ایک شخص ـ جو اسلام کے پیغمبر اعظم صلی اللہ علیہ و آلہ کی نسل سے ہوگا ـ ظہور کرے گا اور حضرت عیسی(ع) ان کی اقتدا میں نماز بجا لائیں گے۔ اس کے باوجود ان کی اکثریت کا خیال ہے کہ مہدی موعود ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں؛ جیسا کہ ان میں سے کئی کا خیال ہے کہ آپ(عج) امام حسن مجتبی علیہ السلام کی نسل سے ہونگے۔]
نویں صدی ہجری کے مشہور سنی عالم عبدالرحمن بن خلدون نے العبر نامی کتاب پر مشہور مقدمہ لکھا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں:
- "جان لو کہ بدان کہ اعصار و قرون کے دوران، اہل اسلام کے مشاہیر کا عقیدہ یہ رہا ہے کہ ہمیں یہ امر ناگزیر ہے کہ آخر الزمان میں اہل بیت میں سے ایک مرد ظہور کرے گا جو دین کی تائید و حمایت کرے گا اور عدل کو ظاہر کریں گے، اور مسلمان ان کی پیروی کریں گے۔ وہ اسلامی ممالک پر چھا جائیں گے اور ان کا نام مقدس مہدی ہے۔ ان کے ظہور کے علائم میں سے سے دجال کا خروج اور اس کے بعد کے واقعات ہیں اور یہ کہ حضرت عیسی علیہ السلام ان کے پیچھے آئیں گے اور دجال کو ہلاک کریں گے یا ان کے ساتھ آئیں گے اور دجال کے ہلاک کرنے میں ان کی مدد کریں گے۔ اور اپنی نماز میں ان کی اقتدا کریں گے و...۔ گوکہ ـ جیسا کہ اشارہ ہوا اہل سنت کی اکثریت کو یقین ہے کہ امام مہدی علیہ السلام آئیں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے جس طرح کہ یہ ظلم و ستم سے بھری ہوئی ہوگی لیکن وہ کہتے ہیں کہ وہ ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں، تاہم شیعہ اور بعض غیر شیعہ مکاتب اور مذاہب کے پیروکار نیز بعض غیر اسلامی مذاہب نجات دہندہ کے عنوان سے ایک مرد کا انتظار کررہے ہیں اور وہ معتقد ہیں کہ وہ مرد موجود ہے اور مسلمانوں اور غیر مسلموں کے اعمال اور رویوں نیز ان کو درپیش مصائب و مسائل کا ناظر و شاہد ہے۔
Post a Comment