Header Ads

ads header

کائنات کو تشکیل دینے والا ابتدائی ماده کیا تھا؟ اس سلسلے میں قرآن مجید اور روایات کا نظریہ کیا ہے؟



انسان اپبنے ارد گرد رونما ہونے والے حوادث کی معرفت حاصل کرنے کے سلسلہ میں جستجو ، تلاش و کوشش کرنے والا ہے ، خاص کر مختلف شعبوںمیں سائنس کی ترقی کے پیش نظر ترقی یافتہ وسائل اور آلات سے عظیم کائنات اور اس میں موجود کہکشانوں کے بارے میں نئی نئی معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ مادی اور فطری علوم کے سائنسدان اگرچہ اس مادی دنیا کے بارے میں کسی حد تک معلومات حاصل کرنے میں کامیابی میں کئی تہیوریاں اور مفروضے پیش کرچکے ہیں ، لیکن اس مطلب کا اعتراف کرنا چاہیے کہ عالم ہستی کی معرفت کے مقابلے میں ان کی معرفت کافی حد تک نا چیز اور کمتر ہے اسی لئے عالم کے ابتدائی مواد کے بارے میں متفاوت نظریات پیش کئے گئے ہیں اور انہیں تہیوری یا مفروضہ کہا جاتا ہے۔

قرآن مجید ، جومعجزه کے طور پر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کے دعوی کی صداقت کو ثابت کرتا ہے، خود مختلف موضوعات کے بارے میں معجزوں کا حامل ہے ان میں سے ایک قرآن مجید کا علمی معجزه ہے قرآن مجید کا علمی معجزه اس کے ان مطالب اور اسرار پر مشتمل ہے جنہیں قرآن مجید نے بیان کیا ہے لیکن قرآن مجید کے نزول کے زمانہ میں عصر جہالت اور ٹیکنالوجی اور صنعت کے فقدان کی وجہ سے اس زمانہ کے انسان کیلئے قرآن مجید کے علمی معجزوں کا ادراک ممکن نہیں تہا لیکں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کے نتیجہ میں ان میں سے بعض کا انکشاف ہوا ہے، البتہ قرآن مجید کا مقصد اور کام پیچیده علمی معادلات اور مسائل کو حل کرنا نہیں ہے بلکہ قرآن مجید نے ان مسائل کو انسان کی عقل و شعور پر چہوڑ دیا ہے۔ قرآن مجید بدیہیات کو پیش کرکے اور مختلف دلائل بیاں کرکے توحید کی طرف انسان کی راہنمایی کرتا ہے اور قیامت کو ناممکن سے خارج کرکے قبول کرنے کے نزدیک لاتا ہے اور اگر قرآن مجید میں اس قسم کے مسائل بیان ہوئے ہیں تو وه خداوند متعال کے وجود اور وحدانیت کی معرفت و توجہ کیلئے ہیں۔

بیشک قرآن مجید کی ذمہ داری اور تقرر انساں کیلئے ہے۔ قرآن مجید کا کام ایک اجمالی نظریہ کائنات کا بنیادی ڈہانچہ بیان کرنا اور اس کے اور پروردگار کے درمیان رابطہ کی بنیاد ڈالنا ہے ۔

لیکن مادی علوم اور عالم طبیعیات کی ایجادات ان کے مختلف وسائل اور طریقہ کار کو انسان کی عقل ، تجربوں ، انکشافات اور مفروضات پر چہوڑدیا گیا ہے تا کہ انسان ان میدانوں میں اپنی توانائیوں کے مطابق تلاش و کوشش کرے۔

اس بنا پر اس قسم کے علمی و تجربی مسائل کو پیش کرنا ، قرآن مجید کیلئے مناسب نہیں لگتا ہے[1]

بہر حال مذکوره سوال کے جواب کے سلسلہ میں ہم پہلے بعض فلاسفہ اور مادی علوم کے دانشوروں کے نظریات پیش کریں گے اور اس کے بعد آیات و روایات اور اسلامی منابع کی طرف رجوع کریں گے تا کہ اس موضوع کے بارے میں ایک مناسب نتیجہ حاصل کرسکیں

فلاسفہ اور دانشوروں کی نظر میں عالم کا ابتدائی ماده

"تالس” نامی سب سے پہلا یونانی فلاسفر ، جو 640 قبل مسیح زندگی بسر کرتا تہا، معتقد تہا کہ کہ "عالم ہستی پانی سے وجود میں آیا ہے اور عالم کے تمام تغیرات چہه ایسے عناصر کی وجہ سے ہیں جو پانی پر اثر ڈالتے ہیں اس کا اعتقاد تہا کہ مٹی اور پتہر ہوا کی تبدیلیوں کے نتیجہ میں پیدا ہوتے ہیں اور ہوا ، بہاپ میں تبدیل شده پانی ہے اور تہ بہ تہ بہاپ بادل ہیں ، آگ ، پانی سے وجود میں آئے منجمد اجسام کے ٹکراو کے نتیجہ میں پیدا ہوئی ہے۔ دنیا میں تمام چیزیں اپنی اصل یعنی پانی کی طرف پلٹتی ہیں۔

یہ فلسفی دعوی کرتا تہا کہ ہستی ، ایک قدیم پانی سے لبریز ہے اور اس کے اطراف میں برف ، پانی کا محاصره کئے ہوئے ہے۔ ان چٹانوں میں سے ایک ٹکڑا جدا ہوکر پانی پر قرار پا گیا ہے جس کا نام زمین ہے۔[2]

طبیعی علوم کے دانشوروں کا اعتقاد ہے کہ اصل ہستی فضا کو پُر کئے ہوئے مسلسل و متحرک ومتخلل (پلپلی) گیس سے وجود میں آئی ہے اور یہ گیس ماده کا گہیرے ہے

اکثر دانشوروں کا یہ اعتقاد ہے کہ ہزاروں ملین سال قبل ” عظیم دہماکہ” کے نام سے ۔۔ رونما ہوئے ایک حادثہ کے نتیجہ میں عالم کا آغاز ہوا ہے ۔۔ تصور کیا جاتا ہے کہ اس دہماکہ کے نتیجہ میں کائنات میں موجود تمام ماده اور انرجی کی تخلیق ہوئی ہے۔

اس وقت عالم کے نشات پانے کے بارے میں مشہور ترین پیشں کیا گیا نظریہ "عظیم دہماکہ ” کا نظریہ ہے[3] اس نظریہ کے مطابق بہت قدیم زمانہ میں ، تقریبا ۱۳ ارب سال پہلے عالم ایک خاص نقطہ کے اندر قرار پایا تہا ، اس میں انرجی یعنی بے انتہا چہوٹے چہوٹے ذرات موجود تہے[4]

اس قسم کی کائنات شناسی کی بنیاد پر ، ہستی نے ایک دہماکہ کے نتیجہ میں گنجاپن اور حد سے زیاده درجہ حرارت سے رہائی پانا شروع کیا اس طرح عالم لمحہ بہ لمحہ وسیع تر ہوتا رہا اور قدرتی طورپر درجہ حرارت بہی رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا[5] یہ سائنسدان عالم کی تخلیق کے سلسلہ میں اپنی تحقیقات اور مشاہدات کے دوران اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ ماده ، تخلیق کی ابتدا میں منجمد اور ساکت تہا ، اور اسی طرح ابتداء میں ماده ، شعلہ ور ، کافی سکڑا اور تہ بہ تہ گیس کی صورت میں تہا اس میں ایک عظیم دہماکہ واقع ہوا جس کے نتیجہ میں ماده اپنے ارد گرد وسیع پیمانہ پر پہیل گیا۔

قرآن مجید کی نظر میں عالم کا ابتدائی ماده

قرآن مجید کے مفسرین سوره ہود کی آیت [6]۷ اور دوسری آیات[7] سے استناد کرکے کہتے ہیں : ” بنیادی طور پر جس چیز سے عالم وجود میں آگیا ہے وه پانی تہا”۔

سید قطب اعتقاد رکہتے ہیں کہ یہ آیت (سوره ہود کی آیت ۷) شرف آسمان و زمین کی تخلیق کے وقت پانی کے وجود اور اس پر عرش الہی کے قرار پانے پر دلالت کرتی ہے لیکن اس پانی کی کیفیت ایک غیبی امر ہے اور اس کو سمجہه لینے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔[8]

بعض مفسرین کے مطابق پروردگار عالم نے پہلے پانی کو خلق کیا ہے اور اس کے بعد آسمانوں اور زمین بلکہ کلی طور پر مادی مخلوقات کو پانی سے خلق کیا ہے[9]

قرآن مجید آسمان کی تخلیق کے بارے میں فرماتا ہے ” ثم استوی الی السماء و ہی دخان "[10] پہر آسمان کی تخلیق کی جب کہ دہویں کی صورت میں تہا”۔

یہ آیہ شریفہ دہویں سے آسمان کی پیدائش کو بیان کرتی ہے۔

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں : ” یہ دہواں وه دہواں نہیں ہے جو آگ کے نتیجہ میں پیدا ہوتا ہے۔[11]

امام علی علیہ السلام کی نظر میں عالم کا ابتدائی ماده

امام علی علیہ السلام ، نہج البلاغہ میں ، افعال الہی ، یعنی مخلوقات، من جملہ ارض و سماوی مجرد اور مادی مخلوقات کی تخلیق اور ان کی تدبیر بیاں کرنے کے ضمن میں اس موضوع ، یعنی عالم کے ابتدایی ماده کے بارے میں فرماتے ہیں : "ثم انشاء سبحانہ فتق الاجواء[12] ۔۔۔” پہر پروردگار عالم نے ایک وسیع فضا کو پیدا کیا اور اس وسیع فضا میں پانی کو پیدا کیا اور یہ پانی ہوا پر قرار پایا یعنی حقیقت میں پروردگار عالم نے فضا میں ایک ہوا کو پیدا کیا اور اس ہوا پر ایک رقیق چیز کو پیدا کیا جو پانی کی شکل میں تہی وه ہوا نیچے سے دباؤ لاکر پانی کو سہارا دے رہی ہے تا کہ یہ پانی ساکت رہے اس کے بعد ایک دوسری ہوا کو پیدا کیا اور یہ ہوا پانی پر دباو ڈال کر اسے متلاطم کرتی ہے ، اور اس کے نتیجہ میں بہت سی لہریں پیدا ہوتی ہیں یہ لہریں متلاطم ہوتی ہیں اور ان امواج کے آپس میں ٹکرانے کے نتیجہ میں جہاگ پیدا ہوتا ہے ( حقیقت میں یہ جہاگ ، وہی پانی کے ذرات ہیں جو اوپر کی طرف آتے ہیں ) اور اسی جہاگ سے آسمان خلق ہوئے ہیں۔ بعض روایات، جن میں سے ایک خود حضرت علی علیہ السلام کی روایت ہے، سے معلوم ہوتا ہے کہ جہاگ سے بہاپ اٹہی جو دہویں کی صورت میں تہی[13] البتہ ان دونوں نطریات کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کیوں کہ جب بہاپ ایک جگہ پر جمع ہوتی ہے تو وه اوپر اٹہتی ہے اور دہویں کی صورت اختیار کرتی ہے۔

اس لئے اگر ہم حضرت علی علیہ السلام کے اس بیان کو دوسری روایتوں کے ساتہه جوڑدیں تو معلوم ہوتا ہے کہ حضرت علیہ السلام پانی کو عالم کا اصلی ماده جانتے ہیں۔

آیات و رویات اور جدید نظریات میں یکسانیت

بیشک لفظ "دخان” یعنی قرآن مجید میں بیان کئے گئے دہویں کا مراد ، اصطلاحی دہواں نہیں ہے ، کیونکہ دہواں آگ سے پہچانا جاتا ہے ، مفسرین ، حضرت امام باقر علیہ السلام کی مذکوره روایت سے استفاده کرتے ہوئے اس بات پر متفق ہیں کہ قرآن مجید کی اصطلاح میں ” دخان” ( دہواں) آگ سے پیدا ہونے والا دہواں نہیں ہے ، بلکہ امواج کی شدت کے نتیجہ میں پانی سے پیدا ہونے والا دہواں ہے ، جو پانی سے اٹہنے والی بہاپ کا استعاره ہے اسی طرح یہ بہی ممکن ہے کہ سوره ہود کی آیت نمبر ۷ میں بیان کیا گیا عرش اعلی خدا کی قدرت کا کنایہ ہو اور حقیقت میں ، مادی عالم کی تکوین و تشکیل کا آغاز ، پانی سے تہا۔ یہ حضرت علی علیہ السلام کا وہی کلام ہے کہ آپ نے فرمایا: ” عالم کی خلقت پانی سے ہوئی ہے ۔۔۔

لیکن اس سلسلہ میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے کہ اس پانی سے مراد یہی پانی ہے جو آکسیجن اور ہائیڈروجن سے تشکیل پاتا ہے۔ بلکہ ممکن ہے کہ مراد وہی پگہلا ہوا ماده ہو ، اور چوں کہ اس زمانہ کے لوگوں کیلئے پگہلے ہوئے ماده کی پہچان نہ ہونے کی وجہ سے ، اس کا نام نہیں لیا گیا۔ اس لئے اس کی پانی سے تعبیر کی گئی۔ اسی طرح جس ہوا کے بارے میں حضرت علیہ السلام فرماتے ہیں کہ پانی پر مسلط ہے ، ممکن ہے اس سے اصطلاحی ہوا مراد نہ ہو ، بلکہ وہی طاقت ہو جو پگہلے ہوئے ماده کو فوری متحرک بناتی ہے۔

اسی طرح امام باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ : ” جب اللہ نے آسمان کو خلق کرنا چاہا تو ہواؤں کو حکم دیا تا کہ سمندر میں تلاطم پیدا کریں ” امام علیہ السلام کے اس ارشاد میں استعمال شده سمندر کی اصطلاح سے بہی معلوم نہیں ہے کہ یہی سمندر اور اقیانوس مراد ہے ، کیونکہ ان سمندروں کا تشکیل پانا اسی زمین کی خلقت سے مربوط ہے اور یہاں پر بحث خود کہکشانوں کی پیدائش کے بارے میں ہے کہ زمین ان کا ایک حصہ ہے۔

اس لئے اس وضاحت کے پیش نظر عالم کے ابتدائی ماده کے سلسلہ میں امام علی علیہ السلام کے نظریہ اور جدید سائنسی تہیوری کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے حضرت علی علیہ السلام کے ارشاد کے مطابق عالم کا بنیادی ماده پانی تہا اور طبیعی علوم کے سائنسدانوں کے مطابق پگہلا ہوا ماده تہا۔

امام علی علیہ السلام نہج البلاغہ میں فرماتے ہیں : ” حرکت کے نتیجہ میں جہاگ پیدا ہوا ہے ، جہاگ سے مراد وہی پانی کے ذرات ہیں جو پگہلے ہوئے ماده میں اوپر کی طرف جاتے ہیں اور پہر اس سے جدا ہوتے ہیں ، یعنی حقیقت میں اس سے کچہه ذرات جدا ہوکر بہاپ کی صورت میں اوپر چڑہتے ہیں اور اسی بہاپ سے آسمان کی تخلیق ہوئی ہے اور خود جہاگ سے زمین کی تخلیق ہوئی ہے۔ اس بنا پر زمین بہی وہی پگہلا ہوا ماده تہا جو بعد میں اوپر سے بندہو گیا ہے یہ مطلب عظیم دہماکہ کے نظریہ کے ساتہه قابل تطبیق ہے، جسکے مطابق پگہلے ہوئے ماده سے کچه ذرات جدا ہو کر زمین کی صورت اختیار کرگئے ہیں

اس لئے قرآن مجید کی آیات و روایات کے نظریہ اور علوم جدید کے سائنسدانوں کے نظریہ کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے چونکہ لفظ آب اور بہاپ پگہلے ہوئے ماده اور گیس کے ساته قابل تطبیق ہیں اس لئے قرآن مجید اور روایات کا نظریہ ، جدید نظریات ، خاص کر "سوڈیم "[14] کے نظریہ کے ساتہه قابل تطبیق ہے۔

البتہ متکلمین نے اس مسئلہ میں بظاہر صرف آیات و روایات پر اکتفا کیا ہے اور کسی توجیه کے بغیر انہیں قبول کیا ہے اور کہا ہے :’ چونکہ خداوند متعال تمام چیزوں پر قدرت رکہتا ہے ، اس لئے ، ممکن ہے پانی کو خلق کرے اور اس سے زمین و آسمان پیدا کرے "۔

بعض نے قرآن مجید کی آیت : "ہم نے ان کو نہ زمین و آسمان کی خلقت کا گواه بنایا ہے اور نه خود انہیں کی خلقت کا[15] ۔۔۔” سے استناد کرکے اور اس استدلال پر کہ ابہی سائنسدانوں کا نظریہ مفروضہ کے مرحلہ اور رد و قبول کی حالت میں ہے اور ابہی صحیح علمی قوانین کے درجہ پر نہیں پہنچا ہے اور کسی نے ابتدائی ہستی اور اجرام کی تکوینی کیفیت کو بہی نہیں دیکہا ہے[16] اس لئے قبول کیا ہے کہ عالم کا ابتدائی ماده پانی ہے[17]

بعض دوسرے افراد، آسمانوں اور زمین کی پانی سے تخلیق کی توجیہ کرتے ہوئے حسب ذیل کچہه اور مطالب بیان کرتے ہیں اور کہتے ہیں :

عالم دو قسم کا ہے:

۱۔ عالم خلق و ماده

۲۔ عالم امر ، یعنی مجردات کا عالم اس کی دلیل سوره اعراف کی آیت نمبر ۵۴ ہے جس میں خدائے متعال فرماتا ہے : ” الا لہ الخلق والامر” "اسی کے لئے خلق بہی ہے اور امر بہی

خلق سے مراد عالم فطرت اور "امر” سے مراد عالم مجردات ہے

اس اصول کے مطابق پانی سے مراد، فیض الہی ہونا چاہیئے ، وه فیض جو تمام عالم وجود ( عالم عقول و مجردات سے لے کر عالم فطرت تک) پر مشتمل ہے اس بناء پر اس عبارت سے مراد یہ ہے کہ پانی اور لہروں کے ٹکراؤ کے نتیجہ میں زمین و آسمان پیدا ہوئے ہیں خدا سے حاصل کئے گئے فیض کے نتیجہ میں عالم عقول پہیل گیا ہے اور اس کے پہلاؤ کے نتیجہ میں عالم ماده یعنی زمین و آسمان خلق ہوئے ہیں[18]

آخر میں اس نکتہ کو بیان کرنا ضروری ہے کہ آیات و روایات کا سامنا کرنے کی صورت میں درج ذیل چند پہلوؤں کو مد نطر رکہنا چاہیے:

۱۔ اگر چہ بظاہر قرآن مجید اور سائنس سے معلوم ہوتا ہے کہ عالم ابتداء میں گرم گیس سے پیدا ہوا ہے ۔لیکن دوسرے نظریات جسیے ” مہباگ” ( ابتدائی عظیم دہماکہ ) کے بارے میں قرآ مجید کوئی واضح مطلب بیان نہیں کرتا ہے ۔

۲۔ خلقت کے آغاز کے بارے میں متعدد نظریات پیش کئے گئے ہیں اور ان کے قطعی طورپر ثابت نہ ہونے کے پیش نظر فی الحال ان میں سے کسی ایک کو قطعی طورپر قرآن مجید سے نسبت نہیں دی جاسکتی ہے۔ اس لئے اسلامی کتابوں میں اس سوال کاجواب اسلاف کی اس سلسلہ میں مباحثاتی توانایی کے نمونوں اور قرآن مجید کے معجزوں کی حد تک پیش کیا گیا ہے۔

۳۔ اگر ایک دن ” عظیم دہماکہ” کا نظریہ قطعی طورپر ثابت ہوجائے تو یہ مطلب قرآن مجید اور روایات کے علمی معجزه کو ثابت کرے گا ، کیوں کہ یہ ایک قسم کا قرآن مجید اور روایات کے علمی راز سے پرده اٹہانا ہے[19] لہذا فی الحال کسی چیز کو قطعی طورپر قرآن مجید اور روایات سے استناد نہیں دیا جاسکتا ہے۔

حوالہ جات

[1] اس سلسلہ میں سید قطب کہتے ہیں ؛” جو مسلمان جدید ٹیکنالوجی کا چکا چوند لگانے والے زرق و برق سے متاثر ہوکر کوشش کرتے ہیں تا کہ بعض امور کو قرآن مجید سے ربط دین اور چاهتے ہیں کہ قرآن مجید کو علم طب ، کمسٹری ، اور فلکیات وغیره کی کتاب کے عنوان سے پہچنوائیں وه انتہائی ساده لوح ہیں ” سید قطب کہتے ہیں :” قرآن مجید اپنے موضوع میں ایک مکمل کتاب ہے اور اس کا موضوع ان تمام علوم سے عظیم اور برتر ہے کیونکہ قرآن مجید کا موضوع ، خود انسان ہے ” تفسیر فی ظلال القرآن ج ۱ ص ۱۸۱

[2] عبدالغنی ، خطیب ، قرآن و علم امروز ( ترجمہ اسد اللہ مبشری ) ص ۶۹ ، ۷۰

[3] ۱۹۲۷ میں جارج لومٹر نامی بلجیک کے ایک ستاره شناس نے یہ نظریہ پیش کیا کہ عالم ابتداء میں بہت چہوٹا تها اس نے عالم کی اس حالت کو "کائناتی انڈا” نام رکہا کہ مہیب دہماکہ کے بعد عالم نے موجوده وسیع صورت اختیار کی ہے ، ۱۹۳۰ ء اور ۱۹۴۰ء کی دہائی کے دوران ” کائناتی انڈے ” کا نظریہ ختم ہوکر "عظیم دہماکہ” کے نظریہ میں تبدیل ہوا ( دانشنامہ آکسفورڈ ج۱ ص ۹۰)

[4] ہر جسم کے حجم اور جرم کے یونٹ کو چگالی کہتے ہین (جرم اور حجم کی نسبت)

[5] مزید آگاہی اور معلومات کے لئے ، ‘ باشگاه اندیشه ” "پارساکار” اور "مجلہ رشد” کی سائٹوں کی طرف رجوع کیا جائے

[6] "و ہو الذی خلق السماوات وا الارض فی ستۃ ایام و کان عرشہ علی الماء ” اور "وہی وه ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چہه دنوں میں پیدا کیا ہے اور اس کا تختِ اقتدار پانی پرتہا۔

[7] جیسے :” و جعلنا من الماء کل شیء حی ” اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا کیا ہے ” (انبیاء / ۳۰)

[8] سید قطب ، تفسیر فی ظلال ، ج ۴ ش ۱۸۵۷

[9] دائرۃ المعارف قرآن کریم ، ج ۱ کلمہ ی آب۔

[10] فصلت / ۱۱

[11] لما أراد اللہ سبحانہ و تعالی ان یخلق السماء ، امر الریاح فضربن البحر حتی ازید فخرج من ذالک الموج و الزید دخان ساطع من وسطہ مں غیر نار ، فخلق اللہ منہ السماء ، یعنی جب پروردگار علم نے آسمان کو خلق کرنا چاہا تو ہواؤں کو حکم دیا کہ سمندروں کوآٓپس میں ٹکرائیں اس طرح جہاگ وجود میں آگیا۔ ان لہروں اور جہاگ سے سمندر میں موجود ، آگ کے بغیر پیدا ہونے والا دہواں وجود میں آگیا ، خداوند متعال نے اس دہویں سے آسمان کو خلق کیا ( ابں میثم ، شرح نہج البلاغہ ج ۱ ش ۱۳۸)

[12] نہج البلاغہ خطبہ ۱ ، ” اس کے بعد خداوند متعال نے قسم قسم کے طبقات وجود میں لائے اور ان کے اطراف کو کہول دیا اور خالی فضا وجود میں لایا اور اس میں ایک ایسے پانی کو جاری کیا جس میں متلاطم لہریں ایک دوسرے سے ٹکراتی تہیں ، اور اسے ایک شدید ہوا اور طوفان پر قرار دیا ، پہر ہوا کو پلٹادیا اور اسے اس کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی اور مطلوبہ حد تک اسے قریب لے آیا اس کے نیچے ایک خالی فضا بنائی اور اس کے اوپر پانی جاری تہا اس کے بعد خداوند متعال نے ایک ایسا طوفان اٹہایا جس کا کام صرف پانی کو متلاطم کرنا تہا اور پانی کی لہریں مسلسل ایک دوسرے سے ٹکراتی تہیں ، شدت کے ساتہه طوفان چلتا تہا اور ایک دور نقطہ اس کا سر چشمہ تہا اس کے بعد اسے حکم دیا تا کہ تہ بہ تہ پانی اور پانی کی عظیم لہریں آپس میں ٹکرائیں اور ان سمندروں کی لہریں ہر طرف پہیل جائیں پس انہیں مشک کے مانند آپس میں ،مخلوط کیا ” ( ترجمہ و شرح نہج البلاغہ ج ۱ ص ۵۰)

[13] ابں میثم ، شرح نہج البلاغہ ج ۱ ص ۱۳۸

[14] سوڈیم ، وہی کائناتی غبار کے ساتہه مخلوط شدہ گیس ہے یا دوسرے الفاظ میں ایک ایسی معلق گیس ہے جس میں سخت مواد موجود ہے ، جس کی دانشور ، قرآن میں بیاں کئے ہوئے "دخاں” (دہویں ) سے تطبیق کرتے ہیں۔

ایک مفروضہ یہ بتاتا ہے کہ سورج ، ستاروں اور زمین وغیره کا ماده ایک گرم جاری اور پگہلا ہو اماده تہا ، اس پگہلے ہوئے ماده کی حرکت کی شدت کی وجہ سے اس سے کچہه ٹکڑے جدا ہوئے اور یہ ٹکڑے نظام شمسی کی زمین، چاند وغیره کی صورت میں وجود میں آئے ہیں اس نظریہ کے مطابق پانی اور بگہلے ہوئے ماده کے درمیان اشتراک کا سبب وہی انکا جاری ہونا ہے اس بنا پر ممکن ہے پانی سے مراد وہی بگہلا ہوا ماده ہو اور سوڈیم وہی گیس اور دہواں ہو جو اس پگہلے ہوئے ماده کی شدید حرکت کی وجہ سے وجود میں آیا ہے اور اس سے آسمان خلق ہوئے ہیں۔

[15] و ما اشہدتم خلق السموات و الارض ، کہف ۵۱

[16] عبد الغنی خطیب ، قرآن و علم امروز ( ترجمہ اسد اللہ مبشری ) ش ۸۵ ۔۸۶

[17] مادی موجودات کی خلقت کے سلسلہ میں علماء کے نظریات کے بارے میں مزید معلومات اور آگاہی حاصل کرنے کیلئے ملاحظہ ہو : شرح نہج البلاغہ ابں میثم ، ج ۱ ش ۱۳۸ ۔ ۱۵۵

[18] مادی موجودات کی خلقت کے سلسلہ میں علماء کی نظریات کے بارے میں مزید معلومات اور آگاہی کیلئے ملاحظہ ہو : شرح نہج البلاغہ ابں میثم ، ج ۱ ش ۱۳۸ ۔ ۱۵۵

[19] مزید معلومات کیلئے ملاحظہ ہو : قرآن مجید کے علمی معجزات پر ایک تحقیق ، تالیف محمد علی رضائی اصفہانی ج ۱ ش ۹۳ ۔ ۱۰۵

1 comment:

  1. Best free spins no deposit bonus - CasinoTaratodos
    What is a op사이트 no deposit casino bonus? dunesquare.com CasinoTaratodos 할리우드 배우 노출 offers all the 슈 의 캐릭터 슬롯 머신 latest no deposit casino bonus codes, free spins no deposit bonuses & 식보 free spins offers.

    ReplyDelete