امام زمانہ(عج) کہاں رہتے ہیں؟
مہدویت سے مربوط ایک رائج سوال یہ کیا جاتا ہےکہ غیبت کے دورمیں امام زمانہ علیہ السلام کہاں رہتے ہیں؟ لیکن اس سوال کے جواب سے پہلے ضروری ہےکہ یہ سوال کیا جائے کہ حضرت خضرعلیہ السلام اوردیگرہستیاں کہ مسلمان جن کے زندہ ہونے پرایمان رکھتے ہیں،کہاں رہتی ہیں؟
ابن تیمیہ اورابن خلدون کا بیہودہ دعویٰ
ابن تیمیہ اپنے ایک اہانت آمیزاوربیہودہ دعویٰ میں کہتا ہےکہ شیعوں کا عقیدہ ہےکہ امام زمانہ علیہ السلام سامرا شہرمیں واقع ایک سرداب میں مخفی ہوگئے ہیں۔ وہ لکھتا ہےکہ شیعوں کی ایک اورحماقت یہ ہے کہ وہ مہدی منتظر کےلیے مختلف مقامات اورمکانات کے قائل ہیں اوروہاں پروہ ان کا انتظارکرتےہیں۔ ان مقامات میں سے ایک مقام سامرا کا سرداب ہے کہ شیعوں کے گمان کے مطابق،یہ مہدی منتظرکے غیب ہونےکا مکان ہے۔ وہ بعض اوقات وہاں پرگھوڑے یا خچرکو کھڑا کرتے ہیں تاکہ مہدی منتظرظہورکے وقت اس پرسوارہوں۔ وہ دن کے آغازاوراختتام اوراسی طرح کچھ دیگراوقات میں ایک شخص کو اس سرداب کے سامنے کھڑا کر دیتے ہیں تاکہ وہ مہدی منتظر سے اس طرح ظہورکی درخواست کرے: اے ہمارے مولا،ظہورکرو، اے ہمارے مولا ظہورکرو۔ شیعہ اس مقام پراسلحہ کی نمائش کرتےہیں درحالانکہ وہاں پرکوئی ایسا گروپ نہیں ہےکہ جس سے جنگ کی جاسکے۔
ابن خلدون نے بھی اسی طرح کا بیہودہ دعویٰ کرتے ہوئے لکھا ہےکہ شیعہ یہ خیال کرتےہیں کہ ان کا بارہواں امام یعنی محمد بن حسن عسکری کہ جسے مہدی کہا جاتا ہے،اپنی والدہ کے ساتھ گرفتارہونے کے بعد حلہ میں اپنے والد کے گھر میں موجود سرداب میں داخل ہوتا ہے اورپھراسی مکان سے پردہ غیبت میں چلا جاتا ہے۔ وہ وہی شخص ہے کہ جوآخری زمانے میں ظہورکرے گا اوردنیا کو عدل وانصاف سے بھردے گا۔ ایک حدیث میں شیعوں کے اس عقیدہ کوبیان کیا گیا ہے کہ کتاب ترمذی میں مہدی کےبارے میں آیا ہے کہ وہ اسی وقت سے مہدی کے ظہورکے منتظرہیں اسی وجہ سے اسے منتظر(ظ پرزبرکے ساتھ )کا نام دیتے ہیں۔ شیعہ ہررات کو نماز مغرب کے بعد اس سرداب کے کنارے پرکھڑے ہوتے ہیں،ایک سواری کو تیارکرتےہیں،مہدی کو پکارتے ہیں اوراس سے ظہورکا مطالبہ کرتےہیں، رات کے وقت وہ چلے جاتےہیں اورہررات وہ یہی کام انجام دیتےہیں تاکہ مہدی کے انتظارپرمبنی اپنےعہدوپیمان پرعمل کرسکیں۔(مقدمه ابن خلدون: ۳۵۲٫)
اس طرح کےبیہودہ دعووں اورباتوں کا شماران تہمتوں اورجھوٹی باتوں میں سے ہوتا ہے کہ جومظلوم شیعوں پرلگائی جاتی ہیں۔
شیعہ علماء کا جواب
اے کاش یہ افراد کم ازکم شیعہ علماء کی ایک حدیث یافرمان کی طرف نسبت دیتے اورپھراس کے وسیلے سےا پنےبعض دعووں اورتہمتوں کو ثابت کرتے۔
شیعوں کےسابقہ اورمتاخرعلماء نے ٹھوس اورمستحکم دلیلوں کے ساتھ ان تہمتوں کومسترد کیا ہواہے کہ جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتےہیں۔
شیخ اربلی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جولوگ امام عصرعلیہ السلام کے وجود کا اعتقاد رکھتے ہیں وہ یہ دعویٰ نہیں کرتےکہ آپ سرداب میں زندگی بسرکرتےہیں،بلکہ ان کا عقیدہ ہے کہ امام عصرعلیہ السلام زندہ ہیں اورمختلف علاقوں میں زندگی بسرکرتےہیں(کشف الغمه فى معرفه الأئمه: ۳ / ۲۸۳٫)
شیخ نوری طبرسی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ہم نے جتنی بھی تحقیق اورریسرچ کی ہے،ان کے دعووں کی سچائی پرکوئی دلیل نہیں ملی ہے اوراس سے بالاتریہ کہ احادیث میں بھی اس سرداب کا کوئی تذکرہ نہیں ہے۔( کشف الأستار عن وجه الإمام الغائب عن الأبصار: ۲۱۲٫)
سید صدررحمۃ اللہ لکھتے ہیں: اہل سنت کے بعض علماء کہ جوہمارے بعض عوامی شیعوں کے اعتقادات کو ہماری طرف نسبت دیتےہیں، مجھےان کے ان اعتقادات کے اثبات پرکوئی دلیل نہیں ملی ہے۔(المهدى علیهالسلام: ۱۵۵٫)
علامہ شیخ عبدالحسین امینی رحمہ اللہ اس بارے میں لکھتے ہیں: سرداب کی تہمت دیگرتمام تہمتوں سے زیادہ اہانت آمیزہے اوراگرچہ اس سے پہلے بعض دیگرعلمائے اہل سنت نے بھی ایسی تہمتیں لگائی ہیں،لیکن وہ تہمت لگانے کی آخری حدتک پہنچ گیا ہے اورگدھوں کا گھوڑوں کے ساتھ اضافہ کردیا ہے۔
وہ دعویٰ کرتا ہےکہ شیعہ ہررات کویہ پروگرام کرتے ہیں اورہزارسال سے زائد عرصہ سے وہ یہ کام کرتے آرہے ہیں؛درحالانکہ شیعہ، سرداب میں امام کے غایب ہونے کا عقیدہ نہیں رکھتےہیں، نہ توانہوں نے خود انہیں سرداب میں مخفی کررکھا ہے اورنہ ہی آنحضرت خود وہاں سے ظہورکریں گے،بلکہ شیعہ روایات کی بنا پرہماراعقیدہ یہ ہے کہ حضرت امام مہدی علیہ السلام مکہ مکرمہ میں خانہ کعبہ کے سامنے ظہورکریں گے۔
شیعوں میں سے کسی نے بھی یہ دعویٰ نہیں کیا ہے کہ آپ سرداب میں غایب ہوئے تھے، بلکہ یہ سرداب سامرا میں ائمہ علیہم السلام کے گھر کا تہ خانہ تھا کہ جواس دورکے رواج کے مطابق سخت گرمی سے بچنے کے لیے گھرکے نیچے بنایا جاتا تھا۔ اس سرداب کی اہمیت اس وجہ سے ہےکہ یہ ہمارے ائمہ کا گھرتھا اورہمارے تین ائمہ اطہارعلیہم السلام نےاس گھر میں زندگی بسرکی ہے۔ لہذا جہاں پر ہمارے ائمہ علیہم السلام اورپیغمبراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گھرہو وہ شیعوں کے لیے قابل احترام ہے۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا حکم دیا ہوا ہے:فی بُیوت أَذِنَ اللهُ أَنْ تُرْفَعَ وَیذْکَرَ فیهَا اسْمُهُ. (سورهی نور: آیهی ۳۶٫)
اے کاش یہ جھوٹی تہمتیں لگانے والے افراد سرداب کے جھوٹ کے بارے میں کسی ایک نتیجے پر پہنچ جاتے تاکہ ان کی کلام میں جھوٹ اورتہمت کی علامات نہ پائی جاتیں اورذلت اوررسوایی کے جال میں نہ پھنستے۔ مثال کے طورپرابن بطوطہ نے اپنے سفرنامہ میں لکھا ہےکہ جس سرداب کی طرف اشارہ کیا گیا ہے وہ حلہ میں واقع ہے۔ (سفرنامهی ابن بطوطه: ۲ / ۱۹۸)
قرمانی اخبارالدول میں لکھتاہے: یہ سرداب بغداد میں واقع ہے۔ بعض دیگرافراد نے لکھا ہے کہ یہ سرداب سامرا میں ہے۔ قمیصی کہ جو ان مذکورہ افراد کے بعد کے دورسے تعلق رکھتا ہے،اس سرداب کے بارے میں کچھ نہیں جانتا ہے بلکہ اس نے اپنے عیب کو چھپانے کے لیے سرداب کے لفظ کواستعمال کیا ہے۔ ۔ ۔
بنا بریں یہ بات مشخص ہوجاتی ہے کہ سویدی اوردوسرے افراد اپنے دعویٰ کے اثبات کے لیے کوئی روایت یا علمائے شیعہ کے کلام کو پیش نہی کرسکے ہیں، جس طرح کہ اہل سنت کے ماہرین حدیث بھی اس مطلب پرکوئی دلیل پیش نہیں کرسکے ہیں۔( الغدیر فى الکتاب والسنه والأدب: ۳ / ۳۰۸٫)
ہمارےعلماء بلکہ قاضی القضاہ بن خلکان( وفیات الأعیان: ۱ / ۳۷۲٫)حافظ گنجی جیسے اہل سنت کے بہت سےعلماء نے اس مسئلے کو مسلّم قراردیتے ہوئے اس کی حمایت کی ہے اوربعض شواہد بیان کرکے اس کے صحیح ہونے کی تاکید کی ہے (البیان فى أخبار صاحب الزمان: (چاپ شده به همراه کفایه الطالب).
یاد رہے کہ شیعہ علماء کی مذکورہ باتیں اس سرداب کے عزت واحترام کرنے کے ساتھ کوئی منافات نہیں رکھتی ہیں،کیونکہ یہ سرداب ایک مبارک مکان ہے کہ جواہل بیت علیہم السلام کا گھر تھا لہذا اسی بنا پرمومنین اس کی زیارت کرتے ہیں۔
ماخذ: موعود آسمانی (پژوهشی در امامت حضرت امام مهدی (ع) از دیدگاه مسلمانان)، قم: الحقایق.
نویسنده: آیت الله سیدعلی حسینی میلانی
Post a Comment