Header Ads

ads header

اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ امام مہدیؓ کا ظہور برحق اور صدق ہے


مولانا ظفر اقبال
امام مہدی  کی مناسبت سے  ذیل میں اس موضوع پر نمبروار چند متفرقات ذکر کیے جا رہے ہیں جن کے مآخذ اس موضوع پر مصنف کی کتاب میں موجود ہیں
 اہل سنت والجماعت کا یہ عقیدہ ہے کہ آخر زمانے میں امام مہدیؓ کا ظہور برحق اور صدق ہے، اور اس قدر روایات سے ثابت ہے جن پر تواتر معنوی کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے۔
 اہلسنت والجماعت امام مہدی کو نہ تو مامور من اللہ سمجھتے ہیں اور نہ ہی ان کا درجہ انبیاء کرام علیہم السلام کے برابر مانتے ہیں، اور وہ انہیں جب ’’امام‘‘ کہتے ہیں تو اس سے کسی خاص گروہ کا اصطلاحی امام مراد نہیں ہوتا، بلکہ وہ اسے پیشوا اور رہنما کے معنی میں لیتے ہیں اور انہیں ’’رضی اللہ عنہ‘‘ کہنا حضرت عیسی ؑ کی صحابیت کیوجہ سے صحیح قرار دیتے ہیں۔
امام مہدی  سینکڑوں سال پہلے پیدا نہیں ہوئے اور نہ ہی وہ کسی غار میں روپوش ہوئے ہیں، اللہ تعالیٰ کے طے کردہ نظام کے مطابق وہ اپنے وقتِ مقررہ پر پیدا ہوں گے، وہ حضرت فاطمۃ الزہرائؓ  کی نسل سے ہوں گے، نجیب الطرفین سید ہوں گے، ان کا نام نامی محمد اور والد کا نام عبداللہ ہو گا، جس طرح صورت و سیرت میں بیٹا باپ کے مشابہہ ہوتا ہے ، اسی طرح وہ شکل و شباہت میں اور اخلاق و شمائل میں آنحضرتؐ  کے مشابہہ ہوں گے، وہ نبی نہیں ہوں گے نہ ان پر وحی نازل ہو گی، نہ وہ نبوت کا دعویٰ کریں گے لہٰذا ان کی نبوت پر ایمان لانے کا سوال بھی پیدا نہیں ہوتا۔
امام مہدی  سے متعلق روایات کم از کم ۷۳ صحابہ کرامؓ سے مروی ہیں، یہ تعداد ایسی ہے کہ اس پر تواتر کی تعریف صادق آسکتی ہے ۔
 امام مہدی  کی پیدائش مدینہ منورہ میں ہو گی اور وہ وہیں پلے بڑھیں گے۔
 امام مہدی  کے ظاہر ہونے پر ہمارے عقائد میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی، نیز ظہور مہدی اور خود امام مہدی  ہمارے عقائد میں سے کسی عقیدے میں تبدیلی کا تقاضا نہیں کریں گے، البتہ وہ احیاء سنت اور اماتتِ بدعت کی جانب خوب متوجہ ہوں گے۔
 ظہور امام مہدی کے موقع پر امام مہدی کی بیعت و معاونت کرنا قرآن و سنت کی پیروی کے مخالف نہیں ہو گا بلکہ اس کے عین مطابق ہو گا۔
 جس سال امام مہدی کا ظہور ہونا ہو گا، اس سال حج امیر کے بغیر ہو گا، منی میں کسی بات پر لوگوں کے درمیان جھگڑا ہو گا جس کا انجام قتل و غارت گری پر ہو گا، حجاج کرام کو لوٹا جائے گا اور جمرۂ عقبہ کے پاس خوب خونریزی ہو گی، اسی دوران پوری دنیا سے سات بڑے بڑے علماء بغیر کسی سابقہ تیاری کے مکہ مکرمہ آ پہنچیں گے اور امام مہدی کو تلاش کریں گے، تا کہ ان کے ہاتھ پر بیعت کریں اورفتنوں کاخاتمہ ہو ، جب یہ علماء امام مہد ی کو تلاشنے میں کامیاب ہو جائیں گے اور علامات و اوصاف سے یہ کچھ زیادہ مشکل نہ ہو گا، تو ان سے اپنی بیعت کی درخواست کریں گے ، امام مہدی پہلے تو تردد کا اظہار کریں گے اور اس ذمہ داری سے بچنے کی کوشش کریں گے لیکن جب ان علماء کااصرار بڑھ جائے گا تو امام مہدی حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ان سے بیعت لیں گے، پھر اسی دن عشاء کی نماز کے بعد عمومی بیعت ہو گی اور امام مہدی خطبہ ارشاد فرمائیں گے۔
 حضرت امام مہدی کے ظہور کے بعد کفار و مشرکین اور یہودونصاریٰ سے ان کی خونریز جنگیں ہوں گی،حتی کہ جنگ ِخلیج (جنگ ِ قسطنطنیہ) سے فارغ ہونے کے بعد دجال کا خروج ہو جائے گا ، جسے قتل کرنے کیلئے حضرت عیسی ؑ آسمان سے نازل ہوں گے، نزول عیسی ؑ کے بعد حضرت امام مہدی علیہ الرضوان کا کام چونکہ پورا ہو چکا ہو گا، اس لیے وہ حکومت و سلطنت اور دیگر تمام امور حضرت عیسی ؑ کے سپرد کرکے ان کے تابع ہو جائیں گے۔
آپ کی خلافت کی میعاد سات یاآٹھ یا نوسال ہو گی، بیعت خلافت کے وقت ان کی عمر چالیس سال ہو گی، ان کی خلافت کے سات سال دشمن سے جنگوں اور ملکی انتظامات میں گذریں گے، آٹھواں سال دجال کے ساتھ جنگ و جدال میں اور نواں سال حضرت عیسی ؑ کی معیت میں گذرے گا، اس حساب سے آپ کی عمر انچاس سال ہو گی، بعدازاں امام مہدی کی وفات ہو جائے گی، حضرت عیسی ؑ نماز جنازہ پڑھائیں گے اور ان کی تدفین عمل میں آئے گی، ان کی وفات طبعی ہو گی اور انہیں بیت المقدس میں سپرد خاک کیا جائے گا۔
 نبیؐ کے فرامین مبارکہ میں جس تسلسل کے ساتھ امام مہدیؓ کا تذکرہ ملتا ہے، اسے دیکھ کر اہل سنت والجماعت نے افراط و تفریط سے پاک ایک نظریہ قائم کیا جس کے کچھ مندرجات دس نکات کی شکل میں اوپر گذرے، لیکن افراط و تفریط کے دو انتہائی سرے بھی امت میں ہر وقت موجود رہے، چنانچہ کچھ لوگوں نے ۶۵۲ھ میں امام مہدی کی پیدائش کا دعویٰ کر کے انہیں ایک غار میں چھپایا، ان کی غیبوبتِ صغریٰ اور بعد میں غیبوبتِ کبریٰ کا اعلان کیا، ان میں خدائی صفات، امامت و نبوت اور تدبیر کائنات جیسی چیزیں ماننے لگے، خود کچھ کر دکھانے اور عمل کرنے کی بجائے ان کے ظہور کے انتظار میں بیٹھ گئے، اور کچھ لوگوں نے یہ رائے قائم کر لی کہ امام مہدی نام کی کسی شخصیت نے نہیں آنا،احادیث و آثار میں جو ان کا تذکرہ ملتا ہے تو وہ روایات حد درجہ ضعیف اور ناقابل اعتبار ہیں، ان پر کسی عقیدے اور نظریے کی بنیاد رکھ کر کسی شخصیت کے انتظار میں بیٹھ رہنا عقلمندی نہیں ہے، اس دوسری قسم کے لوگوں نے یہ رائے پہلی قسم کے لوگوں کو دیکھ کر قائم کی، جب انہوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ خود عمل کرنے سے کتراتے ہیں اور مخصوص رسومات پوری کر کے اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآہو جاتے ہیں اور امام مہدی ہی کا انتظار کرتے رہتے ہیں تو انہوں نے سوچا کہ ہر خرابی کی جڑ یہ انتظارہی ہے، اب ان میں سے کچھ لوگوں نے تو یہ رائے قائم کر لی کہ امام مہدی ایک تصوراتی شخصیت ہیں، حقائق کی دنیا سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، گویا انہوں نے انتظار کا حل یہ نکالا کہ امام مہدی کے وجود اور ظہور ہی کا انکار کر دیا۔

No comments