امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کبری
غیبت کُبرٰی [عربی میں الغيبة الكبرى] (بڑی یا طویل مدت تک غائب ہوجانا)، جس کے معنی شیعیان اہل بیت کے بارہویں امام(عج) کی خفیہ زندگی، کے ہیں جو سنہ 329 ہجری قمری سے شروع ہوئی ہے اور آج تک جاری ہے۔ یہ دور غیبت صغری کے خاتمے اور چار نائبین خاص میں سے چوتھے اور آخری نائب خاص علی بن محمد سمری کی وفات کے ساتھ ہی شروع ہوا۔ اس دور کی خصوصیت امام زمانہ(عج کے ساتھ رابطے کا عدم امکان ہے۔ غیبت کبری کے زمانے میں پیروان اہل بیت کا فرض ہے کہ اپنے دینی مسائل کے حل کے لئے علمائے شیعہ سے رجوع کریں۔
غیبت کبری کا آغاز
امام مہدی علیہ السلام سنہ260ہجری قمری میں اپنی امامت کے آغاز ہی سے شیعیان آل رسول(ص) سے اپنا تعلق نمائندگان خاص کے ذریعے رابطے تک محدود کیا تھا۔ آپ(عج) کے آخری نائب علی بن محمد سمری تھے جو 15 شعبان سنہ 329 ہجری قمری / 9 مئی 941 عیسوی کو وفات پاگئے۔
ان کی وفات سے صرف ایک ہفتہ قبل [[امام زمانہ(عج) کی جانب سے ان کی طرف ایک توقیع جاری ہوئی جس میں امام(عج) نے انہیں لکھا تھا:
-
- "اے علی بن محمد سمری! خداوند متعال تمہارے بھائیوں کو تمہارے حوالے سے [یعنی تمہاری وفات کے حوالے سے] اجر عطا فرمائے؛ کیونکہ تم 6 دن بعد وفات پائیں گے؛ اپنے آپ کو تیار کرو اور کسی کو بھی اپنی موت کے بعد اپنا جانشین نہ بناؤ۔ کیونکہ ابھی سے غیبت کبری کا آغاز ہوچکا ہے، اور کسی قسم کا ظہور نہ ہوگا اس وقت تک جب خداوند متعال اذن عطا کرے گا۔ اور وہ [اذن] طویل مدت کے بعد ہوگا، جب لوگوں کے دل پتھروں جیسے ہوچکے ہونگے اور دنیا ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ اور اس عرصے میں بعض لوگ میرے حامیوں (پیروکاروں) کی طرف آئیں گے اور دعوی کریں گے کہ انھوں نے مجھ سے ملاقات کی ہے؛ لیکن آگار رہو کہ جس نے بھی سفیانی کے خروج اور آسمانی چیخ سے قبل میرے دیدار کا دعوی کیا وہ الزام لگانے والا اور جھوٹا ہے۔]
توقیع صادر ہونے کے چھ دن بعد، اہم وکلاء نائب چہارم
کی بالین پر اکٹھے ہوئے اور ان سے پوچھا کہ ان کا جانشین کون ہونگا؟ انھوں
نے جواب دیا: "امر، اللہ کا امر ہے اور وہ خود ہی اس کو ابلاغ فرمائے گا: ( (لله امرٌ هو بالغه)۔]
چوتھے نائب کی وفات کے بعد نواب خاصہ کے ذریعے قائم رہنے والا تعلق بھی ختم ہوا اور غیبت نئے مرحلے میں داخل ہوئی۔ غیبت کا یہ دور متاخرہ مآخذ میں غیبت کبری کہلایا۔
اکثر شیعہ مآخذ کے مطابق، چوتھے نائب کا سنۂ وفات 329 ہجری قمری ہے لیکن شیخ صدوق اور فضل بن حسن طبرسی کا کہنا ہے کہ نائب چہارم سنہ 318 ہجری قمری میں وفات پاچکے ہیں۔]
غیبت کبری میں امام(عج) کا کردار
شیعہ اعتقادات کے مطابق، گو کہ امام معصوم(ع)
پردہ غیبت میں ہیں لیکن یہ عالم اور اس کے موجودات آپ(عج) کے وجود کے فیض
سے بہرہ ور ہیں اور اس عالم کو اپنے وجود کی بقاء کے لئے خدا کی طرف سے
منصوب امام کے وجود کی ضرورت ہے اور امام(ع) نہ صرف ولایت تشریعی کے مالک ہیں بلکہ تکوینی لحاظ سے بھی عالم پر ولایت رکھتے ہیں۔ اسی بنا پر بعض شیعہ مآخذ حدیث، نے "انَّ الْأَئِمَّةَ هُمْ أَرْكَانُ الْأَرْضِ" (ائمہ زمین کے ارکان اور ستون ہیں) کے عنوان سے، ایک باب قرار دیا ہے۔]
غیبت کے زمانے میں احکام دین کا کا بیان اور حقائق مذہب کی تشریح نیز عوام کی راہنمائی امام(عج) کے لئے ممکن نہیں ہے کیونکہ عوام کو امام غائب تک رسائی ممکن نہیں ہے۔ علامہ طباطبائی کہتے ہیں کہ شیعہ عقیدے کے مطابق امام
کی ذمہ داری صرف یہ نہیں ہے کہ معارف کو ظاہری طور پر بیان کریں اور صرف
ظاہری طور پر لوگوں کی راہنمائی کریں بلکہ امام جس طرح کہ عوام کی ظاہری
راہنمائی کرتا ہے ان کے اعمال کی باطنی راہبری بھی ان کے ذمے ہے؛ وہ لوگوں
کی معنوی اور روحانی حیات کو بھی منظم کرتا ہے اور اعمال کے حقائق کو خدا
کی طرف روانہ کرتا ہے۔
ظاہر ہے کہ امام کا جسمانی حضور یا اس کی جسمانی غیبت اس حقیقت میں
مؤثر نہیں ہے اور امام باطن کے راستے سے لوگوں کے باطن اور نفوس سے متصل
ہوتا ہے اگرچہ یہ سب اس کی ظاہری بصارتوں سے اوجھل ہو؛ امام کا وجود ہمیشہ
اور ہر وقت لازم ہے اگرچہ امام کے ظہور اور عالمی اصلاح کا وقت ابھی نہیں
آیا۔]
عصر غیبت میں امام زمانہ کی ملاقات
مفصل مضمون: امام زمانہ کی ملاقات
امام زمانہ(عج) نے اپنے چوتھے نائب خاص علی بن محمد سمری کے نام اپنی آخری توقیع میں تاکید ہوئی ہے کہ اگر کسی نے سفیانی کے خروج اور آسمانی چیخ سے قبل امام(عج) کے دیدار کا دعوی کیا، وہ جھوٹا ہوگا۔ یہ عبارت شیعہ علماء کے درمیان امام زمانہ(عج) کے دیدار کے امکان یا عدم امکان کے بارے میں مباحثے کا موجب بنی ہے۔
ملاقات کرنے والے
مختلف شیعہ منابع و مآخذ میں ملاقات امام زمانہ(عج) کی متعدد داستانیں نقل ہوئی ہیں۔ اہل تَشَیُّع کے ہاں ان داستانوں میں مشہور ترین داستانوں کا تعلق علامہ حلی، سید بحر العلوم، اسمعیل ہرقلی، حاج علی بغدادی اور علی بن مہزیار کی ملاقاتوں کی داستانیں ہیں۔ یہ داستانیں بحار الانوار اور مفاتیح الجنان اور نجم ثاقب سمیت بہت سی دوسری کتابوں میں نقل ہوئی ہیں۔
نیابت عامہ
مفصل مضمون: نیابت عامہ
امام مہدی(عج) نے سنہ 329ہجری قمری میں چوتھے نائب خاص
کی وفات کے بعد کسی نائب کا تعین نہیں کیا اور یوں عوام کے ساتھ آپ(عج) کا
براہ راست تعلق بھی اور آپ(عج) کی وکالت خاصہ کا دور بھی اختتام پذیر ہوا۔
دوران غیبت کے بارے میں منقولہ روایات ـ منجملہ امام مہدی(عج) سے منقولہ ایک روایت ـ میں شیعیان اہل بیت کو دین و دنیا کے امور میں فقہاء سے رجوع کرنے پر مامور کیا ہے، غیبت کے دور میں امام مہدی(عج) کی نیابت عامہ کا منصب فقہاء نے سنبھالا۔ "عام" کی قید "خاص" کے مقابلے میں آئی ہے اور مراد یہ ہے کہ اس دور میں کوئی بھی امام مہدی(عج) کی طرف سے خاص اور متعینہ نیابت کا عہدیدار نہیں ہے بلکہ جامع الشرائط فقہاء ـ جن کی شرطیں روایت میں منقول ہیں؛ امام عسکری(ع) نے فرمایا:
-
- "فَأَمَّا مَنْ کَانَ مِنَ
الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَى
هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ یُقَلِّدُوهُ۔
ترجمہ: پس جو فقیہ اپنے نفس پر قابو رکھنے والا اور اپنے دین کا نگہبان ہو اور اپنی نفسانی خواہشات کا کی مخالفت کرے اور اپنے مولا کے فرمان کا مطیع و فرمانبردار ہو، تو عوا پر واجب ہے کہ اس کی تقلید کرے۔ اور ان شرائط پر پورے اترنے والے فقہاء عام طور پر نیابت امام زمانہ(عج) کے حامل ہیں۔
- "فَأَمَّا مَنْ کَانَ مِنَ
الْفُقَهَاءِ صَائِناً لِنَفْسِهِ حَافِظاً لِدِینِهِ مُخَالِفاً عَلَى
هَوَاهُ مُطِیعاً لِأَمْرِ مَوْلَاهُ فَلِلْعَوَامِّ أَنْ یُقَلِّدُوهُ۔
غیبت کبری اور شیعیان اہل بیت(ع) کی ذمہ داریاں
سنہ 260ہجری قمری میں امام عسکری(عج) کی شہادت تک، شیعیان اہل بیت(ع) براہ راست ائمہ(ع) کے وجود مبارک یا ائمہ(ع) کے ساتھ دیدار کے امکان سے بہرہ ور اور ان کے قابل اعتماد نمائندوں سے سے فیضیاب ہوتے رہے تھے اور غیبت امام زمانہ(عج) شروع ہوئی تو یہ سوال اٹھا کہ "کیا حجت خدا کے نظروں سے اوجھل ہوجانے کا مطلب یہی نہیں ہے کہ مسلمانوں اور بالخصوص شیعیان اہل بیت
پر اب کوئی عمل واجب نہیں ہے اور ان کے فرائض منسوخ ہوچکے؟"، اگر نہیں تو
کیا ان کے فرائض کا تعین افراد کی عقل کرے گی یا اس کے لئے خاص منابع اور
افراد کا تعین کیا گیا ہے؟ اور اگر منابع اور افراد بھی معین ہیں تو کیا
مسلمانوں کے فرائض کی وسعت ظہور امام(ع) کے زمانے جتنی ہے؟ ان سوالات کا
جواب دینے کے لئے کئی علماء نے مستقل کتابیں تالیف کی ہیں۔ ان ہی میں سے
ایک دبیر الدین میرزا علی اکبر صدر الاسلام ہمدانی" ہیں جنہوں نے اپنی کتاب
پیوند معنوی با ساحت قدس مہدوی میں، عصر غیبت میں مسلمانوں کے فرائض بیان کئے ہیں۔ سید محمد تقی موسوی اصفہانی نے اپنی کتاب مکیال المکارم فی فوائد الدعاء للقائم میں منتظرین کے فرائض بیان کئے ہیں۔
بے شک عصر غیبت میں فرائض منسوچ نہیں ہوتے بلکہ عصری تقاضوں اور قرآن
و سنت نبوی اور اقوال معصومین کو مد نظر رکھ کر جامع الشرائط فقہاء سے
رجوع کرنا پڑتا ہے اور احکام ان سے اخذ کئے جاتے ہیں۔ یہ فتنوں اور
آزمائشوں کا زمانہ ہے چنانچہ ایک مسلمان کو زیادہ زیرکی اور بصیرت سے کام
لینا پڑتا ہے اور شبہات سے بچنے کے لئے ہمیشہ ہوشیار رہنا پڑتا ہے۔ معصومین
تک رسائی نہ ہونے کے بموجب اگرچہ فرائض کا دائرہ کسی حد تک محدود ہے لیکن
مسنون حکمت عملیوں سے کام لیتے ہوئے تشیع
کا تحفظ کرنا منتظرین کے اہم فرائض میں سے ایک ہے۔ اہم نکتہ یہ ہے تاریخی
تشخص، عقائد، فرعی احکام، باہمی اتحاد اور اخلاقی محاسن کے لحاظ سے عصر
غیبت کے شیعہ اور شیعہ عصر ظہور کے شیعہ کے درمیان کسی قسم کا فرق نہیں
ہونا چاہئے؛ اگر آج کے شیعہ کو پہلی صدی میں لے جایا جائے تو وہ اسی زمانے
کے وفادار شیعہ کی طرح موقف اپنا سکے اور آج کا شیعہ اس زمانے کے شیعہ کی
مانند خدا اور رسول اللہ(ص) کی رضا اور خوشنودی کو مد نظر رکھ سکے۔
عصر غیبت میں شیعیان اہل بیت کے فرائض یہ ہیں کہ راہ ہدایت پر ثابت قدم رہے، اپنے دین کا تحفظ کرے، حدیث ثقلین کو مد نظر رکھ کر قرآن اور اہل بیت کا دامن تھامے رکھے؛ یہاں عصر غیبت کے بعض فرائض احادیث کی روشنی میں پیش کئے جاتے ہیں:
شک سے پرہیز
امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:
-
- "... فإيّاكم والشّك والاءرتياب أنفو عن أنفسكم الشكوك و قد حذّرتم فاحذروا من الله...
ترجمہ: پس پرہیز کرو شک اور تردد سے، شکوک و شبہات کو اپنے آپ سے دور کرو اور بتحقیق کہ تمہیں خبردار کیا گیا ہے پس خدا کا خوف کرو [اور عصر غیبت میں اپنے دلوں میں شک کو ریشہ دوانی نہ کرنے دو]۔
- "... فإيّاكم والشّك والاءرتياب أنفو عن أنفسكم الشكوك و قد حذّرتم فاحذروا من الله...
اس حدیث سے ظاہر ہوتا ہے کہ اپنے عقیدے پر یقین کامل رکھنا اور شک سے بچنا چاہئے۔
امر اول سے تمسک کرو اور امر آخر تک پہنچو
احادیث کے مطابق امر اول بعثت نبوی سے لے کر غیبت کے آغاز تک کے 270 سالہ دور کو کہا جاتا ہے جو پیغمبر اکرم(ص) اور گیارہ ائمہ(ع) کا دوران حیات بھی ہے جنہوں نے اس میراث کو یادگار کے طور پر چھوڑا ہے اور فقہاء اس کے وارث ہیں؛ گوکہ امام زمانہ(عج)
کی طرف کی توقیعات کو بھی "امر اول" کا حصہ سمجھا باتا ہے؛ جبکہ "امر آخر"
بظاہر عصر ظہور سے تعلق رکھتا ہے جب امام(عج) خود ہر شخص کے فرائض کا تعین
کریں گے۔ [چنانچہ دوران غیبت کو بھی امر اول ہی کا حصہ ہونا چاہئے]۔ عصر
غیبت میں شیعیان اہل بیت کا فرض بنتا ہے کہ اس گرانقدر میراث کا تحفظ کریں؛ ثقلین کا دامن تھامے رکھیں اور اگر کسی چیز کو نہ سمجھ سکیں تو اس کا انکار نہ کریں کیونکہ ممکن ہے کہ کفر کا مرتکب ہوجائے۔
امام صادق علیہ السلام نے اس زمانے میں شیعیان اہل بیت کے فرائض بیان کرتے ہوئے فرمایا:
-
- "... فتمسّكوا بالامر الاوّل حتّی يبّين لكم الا´خَر..."۔
ترجمہ: امر اول سے تمسک کرو تاکہ امر آخر تمہارے لئے واضح ہوجائے۔ اور فرمایا: - "... كونوا علي ما أنتم عليه حتّ يطلع الله لكم نجمكم..."۔
ترجمہ: اپنے عقائد پر استوار رہو حتی کہ خداوند متعال تمہارا ستارہ تمہارے لئے طالع کردے۔]
- "... فتمسّكوا بالامر الاوّل حتّی يبّين لكم الا´خَر..."۔
عصر ائمہ علیہم السلام کے تمام معیاروں کو ملحوظ رکھنا
دوستی، دشمنی کرنے، پیروی کرنے اور سرپرست کے انتخاب میں ائمہ(ع) کے معیاروں کو ملحوظ رکھنے کا مفہوم بہت اہم اور غائرانہ مفہوم ہے جو ہمیں ائمۂ ہدی(ع)
کے اصحاب اور ان کی ولایت کی راہ میں قربانیاں دینے والے بزرگوں سے متصل
کردیتا ہے۔ چنانچہ ـ بعض روایات کے مطابق ـ منتظرین کے روحانی اور نفسانی
حالات ہمیں عملی طور پر رسول اللہ(ص) اور ائمہ(ع) کے اصحاب کے اعمال اور جنگوں میں شریک کر دیتے ہیں؛ نیز ان کی طرف امام زمانہ(عج)
کی مدد و نصرت کی دلی آرزو آپ(عج) کے رکاب میں جنگ اور شہادت کے اجر و
ثواب کا سبب بن سکتی ہے؛ خواہ وہ آنجناب کے ظہور کا ادراک نہ بھی کریں؛
کیونکہ مشترکہ حب و بغض اور ولایت اعصار و قرون کے لوگوں کے افکار کے اتصال
کا سبب بنتے ہیں۔
منصور صیقل سے مروی روایت میں بیان ہوا ہے کہ:
-
- "إذا أمسيت يوماً لاتری فيه اماما من آل محمد، فأحبّ من كنت تحبّ وأبغض من كنت تبغض ووال من كنت توالي و انتظر الفرج صباحاً ومساءً۔"
ترجمہ: اگر تم کو ایسے دن کا سامنا کرنا پڑے جس میں تم آل محمد میں سے کسی امام کو نہیں دیکھتے ہو، پس دوست رکھو، جس کو تم دوست رکھتے تھے اور دشمن رکھو اس کو جس کو تم دشمن رکھتے تھے اور جس کی ولایت کے سامنے تم سرتسلیم خم کرتے تھے، اس کی ولایت کے سامنے سر خم کرو اور فراخی کے امر کا صبح و شام انتظار کرو۔]
- "إذا أمسيت يوماً لاتری فيه اماما من آل محمد، فأحبّ من كنت تحبّ وأبغض من كنت تبغض ووال من كنت توالي و انتظر الفرج صباحاً ومساءً۔"
ظاہر ہے کہ تولی اور تبری صحیح انتظار کے لئے لازمی شرط ہے جس کے بغیر حقیقی انتظار ناممکن ہے؛ چنانچہ منتظرین کی تعداد قلیل ہے اور احادیث اس کا ثبوت ہیں۔
تقوائے الہی اور دین پر عمل
قرآن
میں بہت سی اچھائیاں، برائیاں، واجبات اور محرمات نیز دین اسلام کے اصول و
فروع موجود ہیں اور تقوی اپنانا اور رتبۂ متقین کا حصول شیعیان اہل بیت کے
اہم فرائض میں سے ہے؛ جیسا کہ امام صادق(ع) نے فرمایا:
-
- "إنّ لصاحب هذا الامر غيبة فليتّق الله عند غيبتة و ليتمسّك بدينه"۔
ترجمہ: اس امر کے صاحب و مالک کے لئے ایک غیبت مقرر ہے پس (منتظرین) ان کی غیبت کے دوران پرہیزگار بنیں اور اللہ کے دین کو مضبوطی سے تھامے رہیں۔ ]
- "إنّ لصاحب هذا الامر غيبة فليتّق الله عند غيبتة و ليتمسّك بدينه"۔
سنت نبوی اور سیرت اہل بیت کی طرف رجوع
جس طرح کہ حرم دو ہیں ایک خدا کا اور ایک رسول اللہ(ص) کا، مراجع بھی دو ہیں: 1) قرآن اور 2) سنت، اور رسول اللہ(ص) اور اہل بیت(ع) کی سیرت؛ معصومین کی سیرت عصری تقاضوں اور حوادث واقعہ کا سامنا کرنے کے بموجب قرآن کی تفسیر، تاویل اور تشریح بھی کہلاتی ہے۔ رسول اللہ(ص) نے فتنوں میں قرآن سے رجوع کرنے اور دوسری حدیث میں گمراہی سے بچنے کے لئے ثقلین کا دامن تھامنے کا حکم دیا ہے؛ لہذا حیرت کے زمانے میں پیروان اہل بیت(ع) کا اہم ترین فریضہ مدینہ ـ (یعنی مذکورہ سیرت کے متن اور اس کے معرض وجود میں آنے کے لئے فراہم شدہ ماحول) ـ کی طرف رجوع، قرار دیا جاتا ہے؛ جیسا کہ امیہ بن علی القیسی کہتے ہیں:
-
- "قلت لابي جعفر محمد بن علي الرضا،
عليهماالسلام، من الخلف بعدك؟ فقال: إبني عليّ وابنا عليّ، ثم اطرق مليّا،
ثّم رفع رأسه ثمّ قال: إنّها ستكون حيرة. قلت: فإذا كان ذلك فإلي اين؟ فسكت
ثفم قال: لا أين، حتي قالها ثلاثا... فقال إلي المدينة. فقلت: أيّ المفدن؟
فقال: مدينتنا هذه، و هل مدينة غيرها؟"۔
ترجمہ: میں نے محمد بن علی الرضا(ع) سے پوچھا: آپ کے بعد جانشین کون ہے؟ فرمایا: میرا بیٹا علی اور ان کے دو بیٹا (امام عسکری اور پوتا امام مہدی علیہ السلام)۔ پھر سر جھکا کر خاموش ہوئے اور تھوڑی دیر بعد سر اٹھا کر فرمایا: بہت جلد ایک حیرت ہوگی۔ میں نے عرض کیا: ایسی صورت حال میں کہاں جانا چاہئے؟ انجناب(ع) خاموش ہوئے اور پھر فرمایا: کہیں بھی نہیں ـ اور اس عبارت کو تین مرتبہ دہرایا ـ میں نے اپنا سوال دہرایا تو آپ(ع) نے فرمایا: مدینہ (= شہر) کی طرف۔ میں نے عرض کیا: کس شہر کی طرف؟ ہمارے اپنے شہر مدینہ کی طرف، کیا اس کے سوا بھی کوئی مدینہ ہے؟ ۔]
- "قلت لابي جعفر محمد بن علي الرضا،
عليهماالسلام، من الخلف بعدك؟ فقال: إبني عليّ وابنا عليّ، ثم اطرق مليّا،
ثّم رفع رأسه ثمّ قال: إنّها ستكون حيرة. قلت: فإذا كان ذلك فإلي اين؟ فسكت
ثفم قال: لا أين، حتي قالها ثلاثا... فقال إلي المدينة. فقلت: أيّ المفدن؟
فقال: مدينتنا هذه، و هل مدينة غيرها؟"۔
امام(ع) کی خاموشی سے معلوم ہوتا ہے کہ کوئی بھی راہ حل امام غائب(عج)
کی جگہ پر نہیں کرسکتا اور کوئی بھی اقدام لوگوں کو حیرت سے نجات نہیں
دیتا لیکن انہیں گمراہی سے بچنے اور ثابت قدم رہنے کے لئے مدینہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے اور ہم جانتے ہیں کہ مدینہ نزول وحی کا مقام اور سنت و سیرت نبی(ص) و اہل بیت
کے پروان چڑھنے کا محور و مرکز ہے چنانچہ مدینہ سے امام(ع) کی مراد اس کی
عمارتیں اور اس کے لوگ نہیں ہیں بلکہ یہاں نازل ہونے والی آسمانی آیات اور
وارد ہونے والی معصومین کی سنت و سیرت ہے۔ مثال کے طور پر اگر ولایت فقیہ اور امام خمینی کی دوسری کتابوں کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ انھوں نے اسی روش سے ولایت فقیہ کو ثابت کردیا ہے اور اس کے نفاذ کی کوشش کی ہے جس کے نتیجے میں انقلاب اسلامی عمل میں آیا ہے اور اسلامی جمہوریہ کی تاسیس ممکن ہوئی ہے۔]
غیبت کا انکار نہ کرنا
امام صادق(ع) نے فرمایا:
-
- "إن بلغكم عن صاحبكم غيبة فلا تنكروها"۔
ترجمہ: اگر تمہارے امام(عج) کی طرف تمہیں غیبت کی خبر ملے تو اس کا انکار نہ کرو۔]
- "إن بلغكم عن صاحبكم غيبة فلا تنكروها"۔
بےشک کسی چیز کی قبولیت کا پہلا مرحلہ اس کا عدم انکار اور اس کے امکان
کو نظر میں رکھنا ہے جس کے بعد تحقیق کے مرحلے میں اس کے ہونے یا نہ ہونے
کے حوالے سے یقین کا حصول ممکن ہوجاتا ہے۔ جبکہ اگر تحقیق کئے بغیر انکار
کیا جائے تو دوسرا مرحلہ کبھی نہیں آئے گا اور متعلقہ موضوع کے بارے میں شک
و تردد برقرار رہے گا۔ اور اگر کوئی موضوع واقعی ہو تو تحقیق کے بعد اس کا
انکار ممکن نہ ہوگا بلکہ اس کے بارے میں یقین حاصل ہوگا۔ گوکہ امام صادق(ع) سے منقولہ حدیث کے مطابق "کوئی بھی امام مہدی علیہ السلام کی غیبت اور امامت کے عقیدے پر استوار اور ثابت قدم نہیں رہے گا سوائے ان لوگوں کے جن سے خداوند متعال نے عالم ذر میں عہد لیا ہے۔]
زبانوں کو قابو میں رکھنا (تقیہ کرنا) اور عجلت نہ کرنا
زبان پر قابو رکھنا، اسرار کو فاش نہ کرنا (تقیہ پر کاربند رہنا)، کم معاشرت کرنا، عجلت سے پرہیز کرنا اور اللہ کی مشیت کے سامنے سر تسلیم خم کئے رکھنا، ویسے بھی مؤمن
کا خاصہ ہے اور یہ سب مکتب کے تحفظ کی ضمانت بھی ہے۔ یعنی ایسی بات کہنے
سے پرہیز جس کا کوئی فائدہ نہیں، فتنوں کے دور میں لوگوں کے ساتھ ضرورت سے
زیادہ معاشرت نہ رکھنا اور خاندان کے مسائل حل کرنے نیز تدبر و تحقیق اور
مطالعے اور غور و فکر اور عبادت و تہجد
میں زیادہ تر وقت صرف کرنا، خدا کا حکم مانتے ہوئے اپنے آپ اور اپنے اہل و
عیال کو آتش دوزخ سے محفوظ کرنا اور خواتین اور بچوں کی تربیت اور انہیں
رائج فتنوں سے نمٹنے کے لئے معارف الہی سے لیس کرنا اس دور کے فرائض میں
شامل ہیں؛ کسی کو گمان نہیں کرنا چاہئے کہ ظہور امام زمانہ(عج)
کے لئے عجلت زدگی خدا کی طرف ظہور میں عجلت کا معیار ہوسکتی ہے۔ یاد رکھنا
چاہئے کہ ظہور امام(عج) اور دولت کریمہ کی تشکیل کی تمہیدات کا ایک بڑا
حصہ انسانوں کی اپنی تیاری اور آمادگی سے تعلق رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں امام صادق(ع) سے متعدد احادیث نقل ہوئی ہیں۔
البتہ اس محدود خانہ نشینی کا مفہوم رہبانیت اور معاشرے سے دوری نہیں ہے
بلکہ خدمت خلق کا اجر و ثواب اپنی جگہ محفوظ ہے؛ لیکن معاشرے میں موجود
رہنے اور موجودہ فتنوں سے دامن بچانے کے لئے تہذیب نفس اور علمی وتربیتی
سرمائے کی ضرورت ہے جس کا اہتمام کرنے کے لئے علماء ربانی اور منابع و مآخذ
چراہ راہ ہوسکتے ہیں۔
صبر و استقامت اور مرابطہ اور تقوی
ارشاد ربانی ہے:
-
- "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"۔
ترجمہ: اے ایمان والو! ضبط و استقامت سے کام لو اور دوسروں کے مقابلے میں پامردی کا ثبوت دو اور سرحدوں پر مورچے مضبوط رکھو اور اللہ کی ناراضگی سے بچنے کا خیال رکھو۔ شاید کہ تم دین و دنیا کی بہتری حاصل کر لو۔]
- "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ اصْبِرُواْ وَصَابِرُواْ وَرَابِطُواْ وَاتَّقُواْ اللّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ"۔
عصر غیبت کے دشوار حالات میں ایک منتظر کو شدید صعوبتوں اور امید و رجا
کے ساتھ دینی فرائض انجام دینا پڑتے ہیں؛ دوسری طرف سے وہ استقامت کے ساتھ
اپنے ہم عقیدہ منتظرین کے اتحاد کی کوشش کرتا ہے اور دشمن کے سامنے مزاحمت
کی راہ پر گامزن ہوتا ہے اور اپنے وجود و بقاء کا تحفظ کرتا ہے؛ وہ اپنے
امام(عج) کی طرف سے نیابتی عبادات بجا لاتا ہے، صدقہ
و خیرات دیتا ہے، آپ(عج) کی سلامتی اور طول عمر نیز ظہور میں تعجیل اور
ظہور کے لئے حالات کی سازگاری کی دعا کرتا ہے، آپ(عج) کے لئے واردہ زیارات
بجا لاتا ہے اور استغاثہ کرتا ہے اور یوں اپنے امام سے رابطہ برقرار رکھتا
ہے اور اس رابطے کو مضبوط بناتا ہے؛ جیسا کہ مذکورہ بالا آیت کریمہ کی
تفسیر بیان کرتے ہوئے امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
-
- "إصبروا علي أداء الفرائض وصابروا عدوّكم ورابطوا إمامكم"۔
ترجمہ: صبر ضبط سے کام لو ادائے فرائض پر، اپنے دشمن کے سامنے استقامت کرو اور اپنے امام(عج) کے ساتھ رابطہ اور تعلق برقرار کرو۔]
- "إصبروا علي أداء الفرائض وصابروا عدوّكم ورابطوا إمامكم"۔
دعا و تسلیم
غیبت کے زمانے میں منتظرین کے اہم فرائض میں سے ایک یہ ہے کہ حضرت حق کی مشیت کے سامنے تسلیم و رضائے کاملہ کی روش اپنائے رکھیں اور امام زمانہ(عج)
کی سلامتی اور آپ(عج) کے ظہور کے لئے دعا کریں کیونکہ ان کی فَرَج اور
فراخی میں دعا کرنے والوں کی فراخی ہے۔ اور اپنے مسائل کے لئے آپ(عج) سے
استغاثہ کریں۔ صاحب مکیال المکارم نے عمار ساباطی سے روایت کی ہے کہ "امام(عج) کے لئے غیبت کے دور میں دعا، ظہور کے زمانے میں دعا سے بہتر ہے۔]
یہ شق درحقیقت ساتویں شق کی تکمیل اور اس کا سبب اور علت ہے اور اس کی اہمیت کے لئے یہی کافی ہے کہ عصر غیبت میں جمعہ کی شام کے لئے وارد ہونے والی ایک دعا کا مطالعہ کیا جائے جس کا آغاز "اللہم عرفنی نفسک" سے ہوتا ہے:
- "اَللّهُمَّ عَرِّفْنى نَفْسَكَ،
فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى نَفْسَكَ، لَمْ اَعْرِفْ رَسُولَكَ،
اَللّهُمَّ عَرِّفْنى رَسُولَكَ،فَاِنَّكَ اِنْ لَمْ تُعَرِّفْنى رَسُولَكَ
لَمْ اَعْرِفْ حُجَّتَكَ، اَللّهُمَّ عَرِّفْنى حُجَّتَكَ، فَاِنَّكَ اِنْ
لَمْ تُعَرِّفْنى حُجَّتَكَ، ضَلَلْتُ عَنْ دينى... "۔
ترجمہ: اے معبود: مجھ کو اپنی ذات کی معرفت کرا دے کہ یقینا اگر تو نے مجھے اپنی معرفت نہ کرائی تو میں تیرے رسول کو نہ پہچان سکوں گا، اے معبود مجھے اپنے رسول کی معرفت کرا دے کہ یقینا اگر تونے مجھے اپنے رسول کی معرفت نہ کرائی تو میں تیری حجت کو نہ پہچان پاؤں گا، اے معبود: مجھے اپنی حجت کی معرفت کرا دے کہ یقینا اگر تونے مجھے اپنی حجت کی معرفت نہ کرائی تو میں اپنے دین سے بھٹک جاؤں گا۔ - "... أللّهم فثّبتني علي دينك و استعملني بطاعتك
و ليّن قلبي لوليّ أمرك و عافني ممّا امتحنت به خلقك و ثبّتني علي طاعة
ولي أمرك الّذي سترته عن خلقك و باذنك غاب عن بريتك و أمرك ينتظر و أنت
العالم غير المعلّم بالوقت الّذي فيه صلاح أمر وليّك في الاءذن له بإظهار
أمره و كشف ستره فصبّرني علي ذلك حتّي لا أحبّ تعجيل ما أخّرت و لا تأخير
ما عجّلت و لا كشف ما سترت و لا البحث عما كتمت و لا أنازعك في تدبيرك و لا
أقول لم و كيف و ما بال ولي الامر لا يظهر و قد امتلات الارض من الجور و
افوضّ أموري كلّها اليك... "۔
ترجمہ: ان سب پر اے معبود : مجھے اپنے دین پر ثابت و قائم رکھ، مجھے اپنے اطاعت میں لگا دے، اپنے ولی امر(عج) کے لیے میرے دل کو نرم کردے، مجھے اس چیز سے بچا کہ جس سے تو اپنی مخلوق کو آزماتا ہے مجھے اپنے ولی امر کی پیروی پر قائم رکھ جنہیں تو نے اپنی مخلوق سے پوشیدہ کردیا ہے، اپنے حکم سے خلق کی نگاہوں سے اوجھل کیا اور وہ تیرے فرمان کا منتظر ہے اور تو بغیر بتانے والے کے اس وقت کو جانتا ہے جس میں تیرے ولی امر کے لیے بہتری ہے کہ تو اسے اپنے امر کو ظاہر کرنے کا حکم دے انہیں پردے سے باہر لائے پس مجھے اس معاملے میں صبر عطا فرما تاکہ میں جلدی نہ کروں جس کام میں تو دیر کرے اور جس میں جلدی کرے اس میں دیر نہ کروں جسے تو پوشیدہ رکھے اسے ظاہر نہ کروں اور جسے تو چھپائے اس کا ذکر نہ کروں تیرے طریق کار میں تکرار نہ کروں، اور کیوں اور کیسے کا سوال نہ کروں کہ کیوں ولی امر ظہور نہیں فرماتے جبکہ زمین ظلم وجور سے بھری ہوئی ہے بلکہ میں اپنے تمام امور تیرے سپر کر دوں۔
متعلقہ مآخذ
- امام مہدی علیہ السلام
- مہدویت
- غیبت امام زمانہ(عج)
- غیبت صغری
- نواب اربعہ
- نیابت خاصہ
- عثمان بن سعید عمری
- محمد بن عثمان عمری
- حسین بن روح نوبختی
- علی بن محمد سمری
- انتظار امام زمانہ(عج)
- ظہور امام زمانہ(عج)
- آخر الزمان
- امام مہدی علیہ السلام
- غیبت امام زمانہ(عج)
- مہدویت کے جھوٹے دعویدار
- دجال
- سفیانی کا خروج
Post a Comment