امام مہدی علیہ السلام کی نصرت اور ہماری ذمّہ داریاں


 


امام محممد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے ، جب ہمارا قایم (امام زمانہ) خروج کرے گا تو الله اپنی رحمت کا ہاتھ لوگوں کے سر پر رکھے گا جس سے انکی عقلیں درست اور افہام کامل ہونگے – (اصول کافی )
آج پوری دنیا میں مسلمانوں کو بدنام کیا جا رہا اور ان پر ظلم کیا جا رہا ہے خاص کر شیعہ مسلمانوں پر دشمنوں کی خاص نظر ہے پر ہم کو دشمنوں کی طرف سے جو مصائب کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے انکو برداشت کرنا اور ان مصائب اور ان پریشانیوں کا مضبوطی کے ساتھ مقابلہ کرنا ہی ہوگا  – کچھ نو جوانوں اور بچوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ اب اس پر آشوب ماحول میں  ہم مسلمانوں یا دین اسلام کا کیا ہوگا تو اس سوچ  کا جواب یہ ہے کہ ہم کو کسی سے ڈرنے یا گھبرانے کی ضرورت نہیں ہے وہ کس لئے تو میں یہاں اپنے چھوٹے بھائیوں کے لئے دو باتوں کا ذکر کرنا چا ہونگا ایک قرآن پاک کے ذریعے دوسری امام کی حدیث سے  –
قرآن مجید میں الله ارشاد فرما رہا ہے کہ  إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِين  
 یعنی، الله صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے – الله کا یہ فرمان ہمارے لئے اس بات کی ضمانت دے رہا ہے کہ  جب تم پر کوئی پریشانی اے تو اس پر صبر کرو بیشک الله تمہارے ساتھ ہے – تو اب سوچنے والی بات یہ ہے کہ جس کے ساتھ الله ہو اسکا کوئی کیا برا کر سکتا ہے الله ارشاد فرما رہا ہے  
وَلَا تَحْسَبَنَّ اللَّهَ غَافِلًا عَمَّا يَعْمَلُ الظَّالِمُونَ ۚ إِنَّمَا يُؤَخِّرُهُمْ لِيَوْمٍ تَشْخَصُ فِيهِ الْأَبْصَارُ
 اے لوگوں یہ مت خیال کرنا کہ یہ ظالم جو عمل کر رہے ہیں خدا ان سے بےخبر ہے۔ وہ ان کو اس دن تک مہلت دے رہا ہے جب کہ (دہشت کے سبب) آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی
قرآن پاک کے فرمان سے ثابت ہوتا ہے کہ دین اسلام  کے دشمنوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے-   
امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں جو مومن ١٢ویں امام کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کی اذیت اور انکے حقائق کو جھٹلانے پر صبر کرے برداشت سے کام لے اور گھبرائے نہیں ، وہ لوگ ایسے ہیں جیسے انہوں نے رسول خدا ص کی ہمراہی میں جہاد کیا ہو – مطلب ایسے لوگوں کو رسول خدا ص کی رقاب میں جہاد کرنے کا ثواب ملے گا – (اکمل الدین )
 امام علیہ السلام کی حدیث بھی اسی طرف اشارہ کر رہی ہے کہ امام علیہ السلام کی غیبت کے دور میں صبر کرنے والا الله اور اسکے رسول کے نزدیک مقام رکھے گا – اور سب سے اہم بات بھلے ہی ہم اپنے  ہادی ، رہبر کو ہم نہ دیکھ سکتے ہوں پر امام مہدی علیہ السلام تو ہماری مدد کے لئے ہمیشہ ہمارے ساتھ ہیں –  پر  اسکے لئے ہم کو امام عصر علیہ السلام کو ہمیشہ یاد رکھنا چا ہیے –
 امام زمانہ علیہ السلام پر ہر نماز کے بعد درود و سلام پڑھنا چاہیے -  (عصر ظہور)
ہم غیبت کبریٰ میں ہیں امام مہدی علیہ السلام کے آنے کا وقت تو ہم  جانتے نہیں اور نہ ہم کسی طرح کا وقت مقرر  کر سکتے ہیں – امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں جو لوگ آخری زمانہ کے امام کے ظہور کا وقت معین کرتے ہیں وہ جھوٹ بولتے ہیں –
بیشک امام مہدی علیہ السلام کے آنے کا وقت صرف الله ہی جانتا ہے جب الله انکو حکم دیگا امام علیہ السلام دنیا والوں کے سامنے ظاہر ہو جائیں گے، اور دنیا سے ظلم مٹا کر امن و اسلام  کا پرچم پھیلا دینگے -
ہمکو اپنے امام علیہ السلام کے آنے کا انتظار ضرور کرنا چاہیے  ہمکو امام کا منتظر ہی نہیں بلکہ دعا بھی کرنی چاہیے –
خداوند عالم سے یہ دعا مانگی جائے کہ خدایا مجھے ایمان کی حالت میں حضرت قائم علیہ السلام کی ملاقات نصیب فرما – (عصر ظہور)
بہت سے لوگ کہیں گے ہم تو امام کا انتظار ہی کر رہیں ہیں پر انتظار ختم ہی نہیں ہوتا تو میرے بھائیوں  
انتظار لفظ ایسا لفظ ہے کہ اس انتظار کے ذریعے مکمل زندگی کٹ جاتی ہے اور امام مہدی علیہ السلام کے آنے کا  انتظار اور  بڑھتا ہی جاتا ہے تو اس میں حرج ہی کیا ہے آخر ساری زندگی امام کی نصرت کے لئے گزاری اس سے اچّھی زندگی اور کیا ہو سکتی ہے -  
روایات میں ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام  کے ظہور کی تعجیل کے لئے بہت دعا کریں ، کیونکہ آپ لوگوں کی فتح و کشادگی، فتح و نصرت اسی میں ہوگی – (الاحتجاج)
 اور پھر لوگ بھی تو کہتے ہیں جب کوئی محبوب اپنے محبوب کا انتظار کرتا ہے تو اس انتظار  کا لطف  الگ ہی ہوتا ہے -
 جی ہاں ہمارا اور امام مہدی علیہ السلام کا رشتہ بھی ایک محبوب جیسا ہی تو  ہے ہم امام علیہ السلام کے محب ہیں اور امام مہدی علیہ السلام ہمارے محبوب ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ کیا امام مہدی علیہ السلام ہم کو اپنا محب بنائیں گئے؟
 کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم ان کاموں کو کرتے ہو جو امام کو پسند نہیں ہیں جیسے ہم  نماز پابندی سے نہیں پڑھتے، روزہ رکھتے ہیں تو اس میں صرف اپنے کو بھوكا رکھ  کر سمجھتے ہیں کہ ہمارا روزہ مکمل ہوگیا، جب ہم حج کرتے ہیں تو اپنے حاجی ہونے کی فضیلت کو نہیں سمجھتے بلکہ حاجی ہونے کا غرور ضرور کر لیتے ہیں ، جب ہم زکات دیتے ہیں تو سوچتے ہیں گویا سامنے والے پر اور اللہ پر ہم نے  کتنا بڑا  احسان کردیا ، جب ہم خمس  دیتے ہے تو بغیر کسی کو دکھائے دیتے نہیں ، جب ہم اپنے بھائی سے ملتے ہیں تو محبت کے ساتھ نہیں ملتے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں لگے رہتے ہیں یاد رہے  یہ سب باتیں  امام علیه السلام کو بالکل ناپسند ہیں-
رسول الله کی ایک حدیث ہے کہ ایک زمانہ میں میری امّت پانچ چیزوں سے محبت رکھیں گی  اور پانچ چیزے بھول جایں گے –
لوگ دینا سے محبّت رکھیں گے اور آخرت کو بھول جائیں گے –
مال دنیا سے محبّت رکھیں گے اور حساب آخرت کو بھول جائیں گے –
مخلوق سے محبّت رکھیں گے اور خالق کو بھول جائیں گے –
گناہوں سے محبّت رکھیں گے اور توبہ کو بھول جائیں گے –
محلات سے محبّت رکھیں گے اور قبرستان کو بھول جائیں گے –   
اگر ہم کو صحیح میں امام مہدی علیہ السلام سے محبت ہے اور امام مہدی علیہ السلام کے محبوب بننا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہم کو اپنے کردار کو درست کرنا ہوگا اپنے اعمال کو درست کرنا ہوگا ہر وہ کام چھوڑنا ہوگا جسکو امام علیه السلام پسند نہیں کرتے ہیں اور ہر اس کام کو انجام دینا ہوگا جو اللہ کی رضا کے لئے ہو نہیں تو ہم صرف اپنے کو امام مہدی علیہ السلام کا چاہنے والے ہونے کا دعوہ  توکرتے رہیں گے لیکن وہ صرف ہمارے دل کا بہکاوا  ہوگا -
ہم کو سوچنا ہوگا کے کیا واقعی میں ہم امام علیه السلام کے چاہنے والے اور الله کے ہدایت کے راستہ پر ہیں؟ اور ہم کوئی  ایسا کام تو  نہیں کر رہے ہیں جو اللہ اور امام علیه السلام کو نہ پسند ہو؟
میرے پیارے بھائیوں میں آپکے لئے ایک رسول الله صلى الله عليه و آله و سلم کی ایک حدیث نقل کرتا ہوں جو آپ کو بتا ئے گی کہ آپ ایمان کے کس درجہ پر ہیں میں سمجھتا ہوں کہ ہم سب کو  اس حدیث کو اپنی زندگی کا ٹیسٹر بنا لینا چاہیے  –
حضرت رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے ارشاد فرمایا ہے جس شخص میں یہ تین صفتیں ہونگی وہ منافق ہے بھلے ہی وہ نماز و روزے کا پابند ہو اور مسلمان ہونے پر گمان کرتا ہو – 1- جھوٹ بولنا 2- وعدہ خلافی کرنا 3 – امانت میں خیانت کرنا –
رسول الله محمد صلى الله عليه و آله و سلم کی حدیث ہمکو بہت بڑی ہدایت دے رہی ہے کہنے کو یہ تین صفتیں بہت چھوٹی ہیں پر یہ ایمان کے لئے بہت اہم ہیں – اس لئے ہمکو اپنے اپنے ضمیروں کو تلاشنا ہوگا -
  کیونکہ اگر ہم ان  باتوں  کو اپنی زندگی میں نہیں  کرتے  جو الله و اسکے رسول  کو نہ پسند ہیں تو سمجھ لیں کہ آپ واقع میں امام مہدی علیہ السلام سے محبت کرتے ہیں اور ان  کو بلانا چاہتے ہیں اور انکے ظہور کے لیے  ہم زمین تیار کر رہیں -
نہیں تو ہم بھی اس فہرست میں شامل ہو جائيگے جن کو امام زمانہ علیہ السلام پسند نہیں کرتے ہمارے اسلامی معاشرے میں اور خاص کر شیعہ عقیده سے امام مہدی علیہ السلام پردہ غیب میں ہیں اور ایک دن الله کے حکم سے  ظہور کرینگے-  امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کے سلسلہ میں دوسرے مذہب میں بھی ملتا ہے کہ جب پوری دنیا ظلم ہی ظلم ہوگا جب امام مہدی علیہ السلام ظہور کرینگے اور پوری دنیا میں انسانیت کا پرچم لہرا ئیں گے اور اس دنیا سے  ظلم کا نام مٹا دینگے-
لیکن سوچنا یہ ہے کہ امام زمانہ علیہ السلام کے لئے ہم مسلمانوں کی ذمہ داری کیا  بنتی ہے جی ہاں امام علیہ السلام کے لئے ہماری پہلی ذمہ داری تو یہ ہونی چاہئے کے ہم کو امام مہدی علیہ السلام کی زندگی کے فضائل اپنے بچوں،نوجوانوں اپنے مومن بھائیوں کو بتائیں تاکہ  امام علیہ السلام کے حامی اور انکے  رفیق بن جائے ، اور امام مہدی علیہ السلام کی فضیلت کو جاننے  کے بعد امام علیہ السلام کے آنے کے انتظار محبت میں اور زیادہ تڑپ پیدا  ہو جائے گی –
 امام مہدی علیہ السلام کے ہدف و مقصد و مشن کو آگے بڑھانے  کے لئے کچھ اہم ہوشیار  لوگوں کو اپنے آپکو امام کے لئے وقف  کر دینی  چاہیے لیکن اسکے لئے دین اسلام کا مکمل علم ہونا ضروری ہے اس لئے ہماری ذمہ داری ہے کہ علم دین حاصل کرنے کے لئے وہ لوگ آگے آئیں جو اعلی پیمانہ کے ہوشیار ہوں اگر یہ کہوں کہ IAS کے لیبل کے بچوں کو علم دین حاصل کرنا چاہیے تو کہنا غلط نہ ہوگا -  ایسے لوگ نہیں جو ہائی اسکول میں فیل ہو جاتے ہیں یا انگریزی تعلیم میں نہیں چلتے تو  انکو گھر والے  دین اسلام پڑھنے بھج دیتے ہیں –
ویسے ایسا نہیں ہے کہ اسلام نے دنیاوی علم حاصل کرنے سے انکار کیا ہے پر ہاں علم دین کے ساتھ دنیاوی علم حاصل کرنا بھی ضروری ہے –
رسول الله فرماتے ہیں علم کا طلب کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے آگا ہو جاو کہ الله طالبان علم کو دوست رکھتا ہے – (اصول کافی )
علم دین کسی نفع'فایدہ حاصل کرنے کے لئے حاصل کرنے کے لئے جائز نہیں – علم دین امام کی نصرت اور خدا کی وحدانیت کو پہچاننے، آخرت کو سوارنے  کے لئے حاصل کرنا چاہیے-  
امام محممد باقر علیہ السلام نے فرمایا ہے جس نے علم حدیث(علم دین) کو حاصل کرکے نفع دنیا چاہا تو آخرت میں اسکا کوئی حصّہ نہیں - (اصول کافی)  
امام مہدی علیہ السلام کی غیبت کے دور میں ہمارا فرض ہے کہ ہم اپنے نوجوانوں کو ہر شعبہ میں علم حاصل کرنے کے لئے آمادہ کرے – کیونکہ دشمن ہم (دین محمّد) سے مقابلہ کرنے کے لئے نئی نئی ٹیکنالوجی کا استمال کر کے دنیا میں اسکا استمال کر رہا ہے اسی لئے ہمکو بھی اپنے نوجوانوں کو اس طرف توجہ دلانی ہوگی – ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم جس کسی ' شعبہ ' محکمہ کا انتخاب کریں تو دل میں نیت کریں کہ اے الله اس شعبہ کے ذریعے سے میں امام مہدی علیہ السلام کی نصرت کرونگا، تو مجھکو اپنے ایمان پر قائم رکھ – اور امام کا مشیر بنا دے – اور امام سے ملاقات کرا دے -   
اس کے ساتھ ساتھ ہمکو امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کی تیاری ایسے کرنی چاہیے جیسے کہ جب کسی ملک، شہر یا گاؤں میں کوئی غیر ملکی مہمان  آنے والا ہوتا ہے تو ہم سب سے پہلے اس  ملک، شہر یا گاؤں میں اس کی حفاظت کا انتظام کرتے ہیں صاف صفائی  کرائی جاتی ہے جگہ جگہ خوبصورت سے خوبصورت پھولوں  کے گلدستے  لگائے جاتے ہیں  تاکہ  آنے والا خوش ہو اور کوئی ایسا کام نہ کیا جائے جو مہمان کو پسند نہ ہو اسی طرح  امام مہدی علیہ السلام ہمارے مہمان  ہیں-
  اور امام علیہ السلام کی آمد کے لئے ہم کو اپنے گھروں  شہروں  کو صاف کرنے کی ضرورت ہے یعنی  اگر ہم اصل میں  امام مہدی علیہ السلام سے محبت کرتے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ امام کا ظہور ہو جائے  تو ہمکو توکل یعنی الله پر اعتماد رکھنا ہوگا – نفس کی نگرانی کرتے رہنا ہوگا - اپنے اندر چھپے شیطان کو باہر نکال کر  پھیکنا  ہوگا ہم کو اپنے دلوں میں دوڑتے ہوئے  کالے حسد، جلن بغض ، نفرت کو نکال کر پھیکنا ہوگا- حسن اخلاق یعنی ایک دوسرے کے ساتھ اچّھے برتاؤ سے ملنا ہوگا- تلخی حالات پر صبر کرنا ہوگا – حرص اور لالچ سے پرہیز کرنا ہوگا – تکبّر اور غرور سے اپنے کو محفوظ رکھنا ہوگا – تب  ہی ہم کہہ سکتے ہیں کہ ہاں ہم  امام مہدی علیہ السلام کے پیروکار ہیں، انکی نصرت کے لئے تیار ہیں -

Post a Comment

0 Comments